Saturday, 29 November 2014

کاوشِ روزگار میں عمر گزار دی گئی

کاوشِ روزگار میں عمر گزار دی گئی
جبر کے اختیار میں عمر گزار دی گئی
دستِ سبک شعار سے شوق رفوگری کا تھا
جامۂ تار تار میں عمر گزار دی گئی
بامِ خیال پر اسے  دیکھا گیا تھا ایک شب
پھر اسی رہگزار میں عمر گزار دی گئی
کھینچ رہی تھی کوئی شے ہم کو ہر ایک سمت سے
گردشِ بے مدار میں عمر گزار دی گئی
زخمِ امید کا علاج  کوئی نہیں کِیا گیا
پُرسشِ نوکِ خار میں عمر گزار دی گئی
ساری حقیقتوں سے ہم صرفِ نظر کیے رہے
خواب کے اعتبار میں عمر گزار دی گئی
وہ جو گیا تو ساتھ ہی وقت بھی کالعدم ہوا
لمحۂ سوگوار میں عمر گزار دی گئی
رکھا گیا کسی سے یوں ایک نفس کا فاصلہ
سایۂ مشکبار میں عمر گزار دی گئی
دھول نظر میں رہ گئی اس کو وِداع کر دیا
پھر اسی غبار میں عمر گزار دی گئی

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment