میرے سر پہ کبھی چڑھی ہی نہیں
میں نے کچے گھڑے کی پی ہی نہیں
ہائے سبزے میں وہ سیہ بوتل
کبھی ایسی گھٹا اٹھی ہی نہیں
کس قدر ہے بنا ہوا زاہد
جیسے اس نے “وہ چیز“ پی ہی نہیں
صبح کا جھٹ پٹا تھا، شام نہ تھی
وصل کی رات، رات تھی ہی نہیں
کون لیتا بلائیں پیکاں کی
آرزو دل میں کوئی تھی ہی نہیں
کوئی ناخوش ریاضؔ سے کیوں ہو
اس روِش کا وہ آدمی ہی نہیں
میں نے کچے گھڑے کی پی ہی نہیں
ہائے سبزے میں وہ سیہ بوتل
کبھی ایسی گھٹا اٹھی ہی نہیں
کس قدر ہے بنا ہوا زاہد
جیسے اس نے “وہ چیز“ پی ہی نہیں
صبح کا جھٹ پٹا تھا، شام نہ تھی
وصل کی رات، رات تھی ہی نہیں
کون لیتا بلائیں پیکاں کی
آرزو دل میں کوئی تھی ہی نہیں
کوئی ناخوش ریاضؔ سے کیوں ہو
اس روِش کا وہ آدمی ہی نہیں
ریاض خیر آبادی
No comments:
Post a Comment