Monday 24 November 2014

میرے سر پہ کبھی چڑھی ہی نہیں

میرے سر پہ کبھی چڑھی ہی نہیں
میں نے کچے گھڑے کی پی ہی نہیں
ہائے سبزے میں وہ سیہ بوتل
کبھی ایسی گھٹا اٹھی ہی نہیں
کس قدر ہے بنا ہوا زاہد
جیسے اس نے “وہ چیز“ پی ہی نہیں
صبح کا جھٹ پٹا تھا، شام نہ تھی
وصل کی رات، رات تھی ہی نہیں
کون لیتا بلائیں پیکاں کی
آرزو دل میں کوئی تھی ہی نہیں
کوئی ناخوش ریاضؔ سے کیوں ہو
اس روِش کا وہ آدمی ہی نہیں

ریاض خیر آبادی

No comments:

Post a Comment