Wednesday 26 November 2014

تم ہار بھی سکتے ہو

تم ہار بھی سکتے ہو

تم ایسی عدالت کے خود ساختہ منصف ہو
آنکھوں سے جو اندھی ہے، کانوں سے جو بہری ہے
احساس سے عاری ہے، طاقت کی پجاری ہے
پیروں کے تلے جس کے تقدیر ہماری ہے
زرخیز زمینوں میں، افراد کے سینوں میں
وہ فصل اُگاتے ہو، ماحول سے نفرت کی
شفاف ہواؤں میں، معصوم فضاؤں میں
کچھ یوں پھیلاتے ہو، تم زہر تعصب کا
تفریق کی دیواریں، ذہنوں میں اٹھاتے ہو
قوموں کو، قبیلوں کو، آپس میں لڑاتے ہو
دنیا کو غلامی کے آداب سکھاتے ہو
تم ایسی عدالت کے خود ساختہ منصف ہو
تہذیب کا اُجلا پن، اقدار کی زیبائی
باتیں ہیں کتابوں کی، خوش رنگ سرابوں کی
یوں دُور زمانے سے کرتے ہو اندھیروں کو
شمعوں کو بجھاتے ہو، شہروں کو جلاتے ہو
رِستے ہوئے زخموں کو ناسُور بناتے ہو
انصاف کے تم ایسے دستور بناتے ہو
لیکن یہ سمجھ رکھو! مغرور خداوندو 
ظالم کی اطاعت سے، انکار بھی ممکن ہے
گر جائیں یہ نخوت کے، مینار بھی ممکن ہے
چھن جائے کبھی تم سے، دستار بھی ممکن ہے
خود جال میں پھنس جائے صیاد بھی ممکن ہے
اک روز پگھل جائے فولاد بھی ممکن ہے
بے رحم خدائی کے دن بیت بھی سکتے ہیں
تم ہار بھی سکتے ہو، ہم جیت بھی سکتے ہیں

سرور ارمان

No comments:

Post a Comment