Saturday 29 November 2014

اسی میں ہو چکا اب کیا نہ چاہوں

اسی میں ہو چکا، اب کیا نہ چاہوں
سزا ہونے کی ہے، ہونا نہ چاہوں
تُو میرے بعد رکھے گا یاد مجھے
میں اپنے بعد اک لمحہ نہ چاہوں
جدھر دیکھو ادھر بے پردگی ہے
کدھر دیکھوں، کہ میں پردہ نہ چاہوں
لبوں پر ہے بپا حرفوں کی محفل
ابھی گفتار میں آیا نہ چاہوں
جہانِ دید میں نایاب ہو جا
مری جاں! میں تجھے بچھڑا نہ چاہوں
ہیں سب رستے پشیمانی کے رستے
میں چلتا جاؤں، پر رستہ نہ چاہوں
نہ کوئی چاپ زندہ ہے، نہ دستک
تو کیا میں گھر میں دروازہ نہ چاہوں
ہے اب تو سامنے تیرا اک انبوہ
بھلا اب کیوں ترا آنا نہ چاہوں
خیالیں کتنے ہیں یہ شب کے انداز
کہیں میں کوئی اندازہ نہ چاہوں
وہ بیٹھا ہے دریچے بند کر کے
میں دیواروں کو بے پروا نہ چاہوں
جو بولے جاؤ تو رشتے سنیں گے
سو کیا چاہوں جو چپ رہنا نہ چاہوں
چلا ہونٹوں سے مرغولہ دھویں کا
ٹھہر جا! میں ابھی مرنا نہ چاہوں
سخن کی موت ہے یارو! سخن بیچ
میں بستی میں کوئی لب وا نہ چاہوں
جو اگلے پَل تک جینا ہوا تب
بھلا کیسے کوئی وعدہ نہ چاہوں
نہ کیوں چیخوں کہ ہے اک شور برپا
بھلا میں، اور سناٹا نہ چاہوں

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment