Monday 24 November 2014

چھپائی ہیں جس نے میری آنکھیں

چھپائی ہیں جس نے میری آنکھیں، میں انگلیاں اس کی جانتا ہوں
مگر غلط نام لے کے دانستہ لطف اندوز ہو رہا ہوں
فریبِ تخیل سے میں ایسے ہزار نقشے جما چکا ہوں
حقیقتاً میرا سر ہے زانو پہ تیرے یا خواب دیکھتا ہوں
پیام آیا ہے، تم مکاں سے کہیں نہ جانا، میں آ رہا ہوں
میں اس عنایت کو سوچتا ہوں خدا کی قدرت کو دیکھتا ہوں
ہر ایک کہتا ہے اوس میں سو کے اپنی حالت خراب کر لی
کسی کو اس کی خبر نہیں ‌ہے کہ رات بھر جاگتا رہا ہوں
حسیں ہو تم، آپ کی بلا سے، پری ہو تم، آپ کی دعا سے
جواب ملتا ہے سخت لہجے میں، ان سے جو بات پوچھتا ہوں
ہلال اور بدر کے تقابل نے محوِ حیرت بنا دیا ہے
وہ عید کا چاند دیکھتے ہیں، میں ان کی صورت دیکھتا ہوں
شراب، ساقی، صراحی، مئے خانہ، قابلِ قدر ہوں، مجھے کیا
کسی کی آنکھ کے سرخ ڈوروں سے پی کے مخمور ہو رہا ہوں
میں کیا کہوں گا وہ کیا سنیں گے وہ کیا کہیں گے میں کیا سنوں گا
اسی تذبذب میں شادؔ میں ان کے در پہ ڈر ڈر کے جا رہا ہوں

شاد عارفی

No comments:

Post a Comment