Thursday 27 November 2014

ہم سادہ ہی ایسے تھے کی یوں ہی پزیرائی

ہم سادہ ہی ایسے تھے، کی یوں ہی پزیرائی 
جس بار خزاں آئی، سمجھے کہ بہار آئی 
آشوبِ نظر سے کی ہم نے چمن آرائی 
جو شے بھی نظر آئی، گلرنگ نظر آئی
امیدِ تلطف میں‌، رنجیدہ رہے دونوں
تُو اور تری محفل، میں اور مری تنہائی 
یک جان نہ ہو سکیے، انجان نہ بن سکیے
یوں ٹوٹ گئی دل میں‌ شمشیرِ شناسائی
اس تن کی طرف دیکھو جو قتل گہِ دل ہے
کیا رکھا ہے مقتل میں، اے چشمِ تماشائی

فیض احمد فیض

No comments:

Post a Comment