Wednesday 26 November 2014

زمانوں سے در امکان پر رکھے ہوئے ہیں

زمانوں سے درِ امکان پر رکھے ہوئے ہیں
چراغوں کی طرح طوفان پر رکھے ہوئے ہیں
فضاؤں میں مہک جلنے کی بو پھیلی ہوئی ہے
کسی نے پھول آتش دان پر رکھے ہوئے ہیں
ذرا سا بھی گماں تیری شباہت کا تھا جن پر
وہ سب چہرے مِری پہچان پر رکھے ہوئے ہیں
خوشی کو ڈھونڈنا ممکن نہیں اس کیفیت میں
کچھ ایسے سانحے مُسکان پر رکھے ہوئے ہیں
کوئی تیری پرستش کی نہیں صورت نکلتی
ہزاروں کفر اک ایمان پر رکھے ہوئے ہیں
شکم سیری سے پہلے لمحہ بھر کو سوچ لینا
ہمارے خواب دستر خوان پر رکھے ہوئے ہیں
کسی کے روز و شب بکنے کی قیمت چند لقمے
تو کیا وہ بھی تِرے احسان پر رکھے ہوئے ہیں

سرور ارمان

No comments:

Post a Comment