Sunday 23 November 2014

پوشیدہ ہے کچھ پردۂ اسرار کے پیچھے

پوشیدہ ہے کچھ، پردۂ اسرار کے پیچھے
ہے کرب نمایاں، ترے انکار کے پیچھے
سائے کے بھلا کیا قد و قامت سے الجھنا
سورج سے نپٹ لوں جو ہے دیوار کے پیچھے
لَوٹ آئے ہیں ‌خاموش نہ دیکھی گئی ہم سے
ارزانئ دل، رونقِ بازار کے پیچھے
گر سچ ہے، تمہیں ترکِ مراسم کا نہیں دکھ
پھر کیا ہے، یہ سب، اشکِ لگاتار کے پیچھے
پاگل تو نہیں‌ ہو، جو یہ چہروں پہ سکوں ہے
کیوں بیٹھے ہو، ہلتی ہوئی دیوار کے پیچھے
دراصل، نگاہوں میں، کھٹکتا ہے مرا سر
ہیں لوگ، بظاہر، مری دستار کے پیچھے
دنیا کی نگاہوں میں تو، میں ناچ رہا ہوں
وہ ڈور لئے بیٹھا ہے، دیوار کے پیچھے
کیوں لگتے ہیں یہ ٹوٹے ہوئے دل کی سی آواز
کیا راز ہے، ضامنؔ! ترے اشعار کے پیچھے

ضامن جعفری

No comments:

Post a Comment