کس درجہ پُرخلوص ہیں، کیا مہرباں ہیں لوگ
مکر و رِیا کے فن میں وحید الزماں ہیں لوگ
جو بھی ہے وہ، صبا سے زیادہ ہے تیز رو
کیا علم، کس لگن میں، کدھر کو رواں ہیں لوگ
شاید میں آج آپ ہی کچھ غمزدہ نہیں
کتنے بھی ہوں خلیق و دلآویز و پُر تپاک
لیکن یہ جیسے پہلے تھے، ویسے کہاں ہیں لوگ
جن کے سروں پہ کرتے تھے بارانِ سنگ و خشت
اب ان کی تربتوں پہ جواہر فشاں ہیں لوگ
جب تک جیوں، یہیں نہ عدمؔ گھومتا رہوں
رستے ہیں سبز، دیس ہے بانکا، جواں ہیں لوگ
عبدالحمید عدم
No comments:
Post a Comment