کچھ یوں بھی سنو شوقِ ندامت نہیں مجھ کو
قاتل سے بھی اپنے تو عداوت نہیں مجھ کو
تم بھی تو ہو خود اپنے ہی حالات میں محصور
تم سے بھی مری جان! شکایت نہیں مجھ کو
یہ سچ ہے، کہ کہنے کو ہوں ناکام بظاہر
پہلے تو مجھے قُرب کی لذت نہیں بخشی
اب اس سے بچھڑنے کی اجازت نہیں مجھ کو
بس ایک منافق سے مجھے ہوتی ہے نفرت
ورنہ تو کسی شخص سے نفرت نہیں مجھ کو
اس لفظِ محبت نے کیا مجھ کو وہ رُسوا
تم نے بھی کہا تم سے محبت نہیں مجھ کو
تم نے بھی مجھے خواہشِ گمنام ہی سمجھا
تمہارے رویے پہ بھی حیرت نہیں مجھ کو
تیار ہوں میں اگلے سفر کے لئے صفدرؔ
سچ پوچھو کسی چیز کی حسرت نہیں مجھ کو
صفدر ہمدانی
No comments:
Post a Comment