Saturday 29 February 2020

سب یاد رکھا جائے گا

سب یاد رکھا جائے گا

تم رات لکھو، ہم چاند لکھیں گے
تم جیل میں ڈالو، ہم دیوار پھاند لکھیں گے
تم ایف آئی آر لکھو، ہم تیار ہیں لکھیں گے
تم ہمیں قتل کر دو ہم بن کے بھوت لکھیں گے
تمہارے قتل کے سارے ثبوت لکھیں گے
تم عدالتوں سے بیٹھ کر چٹکلے لکھو

Thursday 27 February 2020

دل کی دلی کو کس کی نظر لگ گئی

دل کی دلی کا نوحہ

دل کی دلی کو کس کی نظر لگ گئی؟
کون راون میرے شہر میں آ گئے؟
رام کے نام پر کیسا آتنک ہے؟
گیروی آگ والے بدن کھا گئے
آج گاندھی کی نظریں نہیں اٹھ رہیں
آج نہرو کا چہرہ پریشان ہے

خداوندا تن تنہا گیا ہے سوئے دریا مرا پیاسا گیا ہے

خداوندا تنِ تنہا گیا ہے
سُوئے دریا مِرا پیاسا گیا ہے
دِلا! تیرا یہ ہر اک پر بھروسہ
ہمیں تو مفت میں مروا گیا ہے 
نہ جانے چاند نے کیا بات کی ہے؟
کہ پانی دور تک ہنستا گیا ہے

کچھ بھی کرنا، لمحے ضائع مت کرنا

کچھ بھی کرنا، لمحے ضائع مت کرنا
غلط جگہ پر جذبے ضائع مت کرنا
جن کی آنکھیں پیاری، باتیں جھوٹی ہوں
ان کی خاطر سپنے ضائع مت کرنا
سادہ ہوں اور برانڈ پسند نہیں مجھ کو
مجھ پر اپنے پیسے ضائع مت کرنا

نظرانداز ہیں گھائل پڑے ہیں

نظرانداز ہیں، گھائل پڑے ہیں
کئی دریا، کئی جنگل پڑے ہیں
نظر اٹھی ہے اس کی میری جانب
کئی پیشانیوں پہ بل پڑے ہیں
میں اس کا خط بہا کے آ رہا ہوں
میرے بازو ابھی تک شل پڑے ہیں

Monday 24 February 2020

اب اندھیروں میں جو ہم خوفزدہ بیٹھے ہیں

اب اندھیروں میں جو ہم خوف زدہ بیٹھے ہیں
کیا کہیں، خود ہی چراغوں کو بجھا بیٹھے ہیں
بس یہی سوچ کے تسکین سی ہو جاتی ہے
اور کچھ لوگ بھی دنیا سے خفا بیٹھے ہیں
دیکھ لے جانِ وفا! آج تیری محفل میں
ایک مجرم کی طرح اہلِ وفا بیٹھے ہیں

کوئی سوال نہ کر اور کوئی جواب نہ پوچھ

کوئی سوال نہ کر، اور کوئی جواب نہ پوچھ
تُو مجھ سے عہدِ گزشتہ کا اب حساب نہ پوچھ
سفینے کتنے ہوئے اس میں غرقِ آب نہ پوچھ
تُو میرے دل کے سمندر کا اضطراب نہ پوچھ
میں کب سے نیند کا مارا ہوا ہوں، اور کب سے
یہ میری جاگتی آنکھیں ہیں محوِ خواب نہ پوچھ

کہ اب ضمیر فروشی ہنر کا حصہ ہے

بہت دنوں سے یہ مِرے بام و در کا حصہ ہے
مِری طرح یہ اداسی بھی گھر کا حصہ ہے
پھر اس کے بعد ہوا اور اس کا رحم و کرم
ابھی تلک تو یہ پتہ شجر کا حصہ ہے
ضرور دل سے کوئی رابطہ ہے آنکھوں کا
اسی لیے تو لہو چشمِ تر کا حصہ ہے

روز دل میں حسرتوں کو جلتا بجھتا دیکھ کر

روز دل میں حسرتوں کو جلتا بجھتا دیکھ کر
تھک چکا ہوں زندگی کا یہ رویہ دیکھ کر
ریزہ ریزہ کر دیا جس نے مِرے احساس کو
کس قدر حیران ہے وہ مجھ کو یکجا دیکھ کر
کیا یہی محدود پیکر ہی حقیقت ہے مِری؟
سوچتا ہوں دن ڈھلے اب اپنا سایہ دیکھ کر

تمہارے بعد سبھی دوست سب پرائے گئے

تمہارے بعد سبھی دوست، سب پرائے گئے
ہم آسماں کی پناہوں سے یوں گرائے گئے
عجیب شان سے روشن تھے میرے ماتھے پر
بنامِ بخت، وہ کچھ حرف جب بجھائے گئے
بڑی طویل خموشی تھی میری خلوت میں
پھر ایک روز مجھے قافیے سکھائے گئے

ہر دل میں ایک چور چھپا ہے بتائے کون

باہر کے شور و غل میں صدائیں ملائے کون
ہر دل میں ایک چور چھپا ہے، بتائے کون
طے پا گئیں جزائے وفا، رائیگانیاں
تحریر ہو جو لوح پہ کہیے مٹائے کون
شوقِ وفا، نہ خوفِ جفا یاد ہے ہمیں
لیکن اس ایک خواب کے ہِجے بھلائے کون

نہ دھوپ چھاؤں کے رحم و کرم پہ ڈال مجھے

نہ دھوپ چھاؤں کے رحم و کرم پہ ڈال مجھے
تِرا کھلایا ہوا پھول ہوں، سنبھال مجھے
تِری تہوں میں چھپایا ہوا دفینہ ہوں
تُو آستاں ہے مِرا خود سے مت نکال مجھے
میں تیری آنچ سے پگھلی ہوئی ہوں کیمیا گر
تِرے سپرد ہوں اب جیسےچاہے ڈھال مجھے

Sunday 23 February 2020

اس کھردری غزل کو نہ یوں منہ بنا کے دیکھ

اس کھردری غزل کو نہ یوں منہ بنا کے دیکھ
کس حال میں لکھی ہے مِرے پاس آ کے دیکھ
وہ دن ہوا ہوئے کہ بچھاتے تھے جان و دل
اب ایک بار اور ہمیں مسکرا کے دیکھ
پردہ پڑا ہوا ہے تبسم کے راز پر
پھولوں سے اوس آنکھ سے آنسو گِرا کے دیکھ

چراغ اپنے ہوا دینے سے پہلے

چراغ اپنے ہوا دینے سے پہلے
جلانے تھے بجھا دینے سے پہلے
میاں! کیا لازمی تھا خاک اڑانا
کسی کو راستہ دینے سے پہلے
نسیمِ صبح کو آیا پسینہ
خزاں ‌کو بددعا دینے سے پہلے

ہوا ناراض تھی ہم سے کنارا دور تھا ہم سے

ہوا ناراض تھی ہم سے، کِنارا دور تھا ہم سے
سمندر تھا کہ یاں سے واں تلک بھرپور تھا ہم سے
خودی، خود آگہی، خودرائی جس میں جلوہ گر ہوتے
وہ آئینہ تو پہلے دن ہی چکنا چور تھا ہم سے
مزا بھی ہے سزا بھی ہے مسلسل رقص کرنے میں
مگر ہمرقص ہم تھے، آسماں مجبور تھا ہم سے

خود پکارے گی جو منزل تو ٹھہر جاؤں گا

 خود پکارے گی جو منزل تو ٹھہر جاؤں گا

ورنہ خوددار مسافر ہوں، گزر جاؤں گا

آندھیوں کا مجھے کیا خوف میں پتھر ٹھہرا

ریت کا ڈھیر نہیں ہوں جو بکھر جاؤں گا

زندگی اپنی کتابوں میں چھپا لے، ورنہ

تیرے اوراق کے مانند بکھر جاؤں گا

اس راز کو کیا جانیں ساحل کے تماشائی

 اس راز کو کیا جانیں ساحل کے تماشائی

ہم ڈوب کے سمجھے ہیں دریا! تِری گہرائی

جاگ اے مِرے ہمسایہ خوابوں کے تسلسل سے

دیوار سے آنگن میں اب دھوپ اتر آئی

چلتے ہوئے بادل کے سائے کے تعاقب میں

یہ تشنہ لبی مجھ کو صحراؤں میں لے آئی

ناکامی قسمت کا گلہ چھوڑ دیا ہے

 ناکامئ قسمت کا گِلہ چھوڑ دیا ہے

تدبیر سے تقدیر کا رخ موڑ دیا ہے

وہ جرم بھی اک عظمتِ کردار ہے جس نے

ٹوٹا ہوا اک رشتۂ دل جوڑ دیا ہے

دل ڈوب چلا آخرِ شب خشک ہیں آنکھیں

آ جا، کہ ستاروں نے بھی دم توڑ دیا ہے

محبت عام کرتے ہیں

محبت عام کرتے ہیں
(پاکستان اور ہندوستان کتنے نام)


بہت بوسیدہ سی اک ڈائری میں، میں نے دیکھا ہے
کمال اسلام نانا نے کہا تھا رام بابا سے
تو کیا سمجھیں
رہیں گے مسئلے سب حل طلب یونہی؟
تمہارے راکھ ہونے تک
ہمارے خاک ہونے تک

نظر میں تاب ہی کم ہے کہ روشنی کم ہے

نظر میں تاب ہی کم ہے کہ روشنی کم ہے
بصارتوں کا بھرم ہے، کہ روشنی کم ہے
گہن لگا دیا سورج کو پہلی نسلوں نے
یہ میری نسل کا غم ہے کہ روشنی کم ہے
جو شہر بھر کے چراغ اپنے گھر جلاتا ہے
اسی کے در پہ رقم ہے کہ روشنی کم ہے

Wednesday 19 February 2020

جو تیرے ساتھ رہتے ہوئے سوگوار ہو

جو تیرے ساتھ رہتے ہوۓ سوگوار ہو
لعنت ہو ایسے شخص پہ اور بے شمار ہو
دن رات بہہ رہی ہے توقف کیے بغیر
جیسے یہ آنکھ، آنکھ نہ ہو "آبشار" ہو
اب اتنی دیر بھی نہ لگا، یہ نہ ہو کہیں
تُو آ چکا ہو اور تیرا انتظار ہو

بعد میں مجھ سے نا کہنا گھر پلٹنا ٹھیک ہے

بعد میں مجھ سے نہ کہنا، گھر پلٹنا ٹھیک ہے
ویسے سننے میں یہی آیا ہے، کہ رستہ ٹھیک ہے
اِس جہانِ خاک میں ہر شے کو ہے آخر زوال
اس کا مطلب سُوکھ جاتا ہے تو دریا ٹھیک ہے
ذہن تک تسلیم کر لیتا ہے اس کی برترى
آنکھ تک تصدیق کر لیتی ہے بندہ ٹھیک ہے

بچھڑ کر اس کا دل لگ بھی گیا تو کیا لگے گا

بچھڑ کر اس کا دل لگ بھی گیا تو کیا لگے گا
وہ تھک جائے گا اور میرے گلے سے آ لگے گا
میں مشکل میں تمہارے کام آؤں یا نہ آؤں
مجھے آواز دے لینا تمہیں اچھا لگے گا
میں جس کوشش سے اس کو بھول جانے میں لگا ہوں
زیادہ بھی اگر لگ جائے گا تو ہفتہ لگے گا

سو رہیں گے کہ جاگتے رہیں گے

سو رہیں گے کہ جاگتے رہیں گے
ہم تِرے خواب دیکھتے رہیں گے
تُو کہیں اور ڈھونڈتا رہے گا
ہم کہیں اور ہی کھلے رہیں گے
لوٹنا کب ہے تُو نے، پر تجھ کو
عادتاً ہی پکارتے رہیں گے

Tuesday 18 February 2020

خود سے نکلوں تو الگ ایک سماں ہوتا ہے

خود سے نکلوں تو الگ ایک سماں ہوتا ہے
اور گہرائی میں اتروں تو دھواں ہوتا ہے
اتنی پیچیدگی نکلی ہے یہاں ہونے میں
اب کوئی چیز نہ ہونے کا گماں ہوتا ہے
سب سوالوں کے جواب ایک سے ہو سکتے ہیں
ہو تو سکتے ہیں، مگر ایسا کہاں ہوتا ہے؟

کیسے جانوں کہ جہاں خواب نما ہوتا ہے

کیسے جانوں کہ جہاں خواب نما ہوتا ہے
جبکہ ہر شخص یہاں آبلہ پا ہوتا ہے
دیکھنے والوں کی آنکھوں میں نمی تیرتی ہے
سوچنے والوں کے سینے میں خلا ہوتا ہے
لوگ اس شہر کو خوشحال سمجھ لیتے ہیں
رات کے وقت بھی جو جاگ رہا ہوتا ہے

فقط زمین سے رشتے کو استوار کیا

فقط زمین سے رشتے کو استوار کیا
پھر اس کے بعد سفر سب ستارہ وار کیا
بس اتنی دیر میں اعداد ہو گئے تبدیل
کہ جتنی دیر میں ہم نے انہیں شمار کیا
کبھی کبھی لگی ایسی زمین کی حالت
کہ جیسے اس کو زمانے نے سنگسار کیا

انا کا بوجھ کبھی جسم سے اتار کے دیکھ

انا کا بوجھ کبھی جسم سے اتار کے دیکھ
مجھے زباں سے نہیں، روح سے پکار کے دیکھ
میری زمین پہ چل تیز تیز قدموں سے
پھر اس کے بعد تو جلوے مِرے غبار کے دیکھ
یہ اشک دل پہ گریں تو بہت چمکتے ہیں
کبھی یہ آئینہ تیزاب سے نکھار کے دیکھ

خود کو اتنا بھی مت ستایا کر

خود کو اتنا بھی مت ستایا کر
خواہشیں ہوں تو پھر بتایا کر
تجھ پہ سنجیدگی نہیں جچتی
وجہ بے وجہ مسکرایا کر
آئینہ بے زبان ہوتا ہے
سج سنور کے مجھے دکھایا کر

عشق میں دان کرنا پڑتا ہے

عشق میں دان کرنا پڑتا ہے
جاں کو ہلکان کرنا پڑتا ہے
تجربہ مفت میں نہیں ملتا
پہلے نقصان کرنا پڑتا ہے
اس کی بے لفظ گفتگو کے لیے
آنکھ کو "کان" کرنا پڑتا ہے

Sunday 16 February 2020

لکھ رہا ہوں میں کہانی خواب کی

چن کے پلکوں سے نشانی خواب کی
لکھ رہا ہوں میں کہانی خواب کی
تھوڑی تھوڑی یاد ہے، اک شخص تھا
بات خاصی ہے پرانی خواب کی
اب تو مشکل ہو گیا ہے فرق بھی
اشک ہیں یا ہے روانی خواب کی

سہہ نہ پاؤ گی پھر جدائی کو

سہہ نہ پاؤ گی پھر جدائی کو
چھوڑ دوں میں تیری کلائی کو؟
چند جھوٹی تسلیاں ہوں گی
پاس تیرے ہے کیا صفائی کو؟
اب وہ چپ کی زبان سمجھیں گے
وہ جو سنتے نہیں دہائی کو

انصر اس کا مسکن جو لاہور ہوا

انصر اس کا مسکن جو لاہور ہوا
دکھ میں میرے ایک اضافہ اور ہوا
پہلے تیری یاد سے مل کر باتیں کیں
اس کے بعد میں اچھا خاصا بور ہوا
اس کو دیکھ کے آنکھیں تو محظوظ ہوئیں
دل کی ایک گلی میں لیکن شور ہوا

ہمارے دریا میں بس روانی کا مسئلہ ہے

یہ کب کہا ہے کہ بھائی پانی کا مسئلہ ہے
ہمارے دریا میں بس روانی کا مسئلہ ہے
ہماری آنکھوں میں نیند بے فائدہ رہے گی
ہمارے خوابوں کو بدگمانی کا مسئلہ ہے
ہماری باتیں غلط سمجھتے ہیں سننے والے
ہمارے لفظوں میں کچھ معانی کا مسئلہ ہے

خود بجھاتا ہے چراغ اور مکر جاتا ہے

روز الزام ہواؤں پہ وہ دھر جاتا ہے
خود بجھاتا ہے چراغ اور مُکر جاتا ہے 
عشق وہ کھیل ہے پیارے کہ بچھڑنے والا
اس سہولت سے بچھڑتا ہے کہ مر جاتا ہے
موت کے بعد، یہی سچ ہے زمانے والو
وقت مشکل ہو یا آسان، گزر جاتا ہے 

یہ اس پر منحصر ہے آج یا پھر کل نکالے

یہ اس پر منحصر ہے آج یا پھر کل نکالے
جہاں بھی ایڑیاں رگڑے وہیں سے جَل نکالے
اسے کہنا، مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے
اسے کہنا، کہ میرے مسئلے کا حل نکالے
اسی کی دسترس میں ہے سبھی تخلیق کرنا
اگر چاہے تو سوکھی ٹہنیوں سے پھل نکالے

Saturday 15 February 2020

بنجر زمیں کے واسطے آنسو سنبھال کر

بنجر زمیں کے واسطے آنسو سنبھال کر
میں لے چلا ہوں آگ سے دریا نکال کر
علم و ہنر کے واسطے پُرکھوں کے پاس بیٹھ
اک بات پوچھ، بات پہ ڈھیروں سوال کر
روکیں اگر یہ راستہ، سینے سے کھینچ لے
اتنا نہیں ہے وقت کے سانسیں بحال کر

گھپ اندھیرا تھا جا بجا مجھ میں

گھپ اندھیرا تھا جا بجا مجھ میں
رات رہتی تھی باخدا مجھ میں
میں تو سر کو جھکائے بیٹھا تھا
عشق نے سر اٹھا لیا مجھ میں
غم یہاں سے نکل نہیں پایا
چار جانب تھا حاشیہ مجھ میں

یک بہ یک جھوم اٹھا نفس کو غارت کر کے

یک بہ یک جھوم اٹھا نفس کو غارت کر کے
ایک درویش تِرے ہاتھ پہ بیعت کر کے
میں تِرا نام بھی لیتا نہیں آسانی میں
کیا نکلتا کسی مشکل سے تلاوت کر کے
دل نہ ہو، در پہ لگائی ہوئی گھنٹی ہو میاں
بھاگ جاتے ہیں سبھی لوگ شرارت کر کے

اس میں موجود خزِینے سے محبت ہے میاں

اس میں موجود خزِینے سے محبت ہے میاں
مجھ کو انکار سے، کینے سے محبت ہے میاں
پہلے ہم اس کے بدن کا ہی فقط سوچتے تھے
اب تو کرتے سے پسینے سے محبت ہے میاں
اس لیے شوق سے روتے ہیں یہاں کے باسی
اس کو ساون کے مہینے سے محبت ہے میاں

بزرگ، متقی، تاجر، محلے دار سے تو

بزرگ، متقی، تاجر، محلے دار سے تُو
ہمارا پوچھ کبھی آ کے تین چار سے تو
تجھے خبر نہیں؟ کتنی طویل ہوتی ہے
جو بات آنکھ سے کرتا ہے اختصار سے تو
میں پہلی بات پہ ماتم کروں یا دُوجی پر
یقین سے میں گیا،۔ اور اعتبار سے تو

ہماری نیند ہے پوری نہ خواب پورے ہیں

ہماری نیند ہے پوری نہ خواب پورے ہیں
ادھورے لوگ ہیں لیکن عذاب پورے ہیں
تمہارے بعد ہمیں یہ کبھی لگا ہی نہیں
کہ ہم جہاں ہیں وہاں دستیاب پورے ہیں
ہمارے شہر کے آدھے خراب آدھے ہیں
ہمارے شہر کے آدھے، خراب پورے ہیں

کھینچ کر رات کی دیوار پہ مارے ہوتے

کھینچ کر رات کی دیوار پہ مارے ہوتے
میرے ہاتھوں میں اگرچاند، ستارے ہوتے
ہم نے اک دُوجے کو خود ہار دیا، دکھ ہے یہی
کاش! ہم دنیا سے لڑتے ہوئے ہارے ہوتے
یہ جو آنسو ہیں مِری پلکوں پہ پانی جیسے
اس کی آنکھوں سے ابھرتے ، تو ستارے ہوتے

سفر کی ٹھان کہ دیمک لگی ہوئی ہے مجھے

سفر کی ٹھان کہ دیمک لگی ہوئی ہے مجھے
بدل مکان، کہ دیمک لگی ہوئی ہے مجھے
کہاں کہاں سے وضاحت کروں گا میں غم کی
بس اتنا جان کہ دیمک لگی ہوئی ہے مجھے
میں تیرا بوجھ اٹھانے کا کہہ رہا ہوں، مگر
مِری نہ مان کہ دیمک لگی ہوئی ہے مجھے

ایک شاہ زادی کے نام

ایک شاہزادی کے نام

پہاڑی گزرگاہ خاموش تھی
شاہزادی نے پلکیں اٹھائیں تو سورج
پہاڑوں کے پیچھے چھپا
آسماں تھوڑا نیچے جھکا
سوچ میں پڑ گیا
میرے روشن ستارے زمیں پر گئے

Thursday 13 February 2020

نقش تھا اور نام تھا ہی نہیں

نقش تھا اور نام تھا ہی نہیں
یعنی میں اتنا عام تھا ہی نہیں
خواب سے کام تھا وہاں کہ جہاں
خواب کا کوئی کام تھا ہی نہیں
سب خبر کرنے والوں پر افسوس
یہ خبر کا مقام تھا ہی نہیں

کہاں کا زخم کہاں پر دکھائی دینے لگا

زمیں کا آخری منظر دکھائی دینے لگا 
میں دیکھتا ہوا پتھر دکھائی دینے لگا 
وہ سامنے تھا تو کم کم دکھائی دیتا تھا
چلا گیا تو برابر دکھائی دینے لگا
کچھ اتنے غور سے دیکھا چراغ جلتا ہوا
کہ میں چراغ کے اندر دکھائی دینے لگا

روشنی جیسے کسی شام کے آنے سے ہوئی

روشنی جیسے کسی شام کے آنے سے ہوئی 
خاک دریافت مِری، خاک اڑانے سے ہوئی 
تُو نے چپ سادھ لی موضوعِ محبت دے کر 
گفتگو تجھ سے جو ہونی تھی، زمانے سے ہوئی 
اپنے بارے میں وہ اک بات جو ہوتی نہیں تھی 
تیری آواز میں آواز ملانے سے ہوئی 

میں نے چاہا ہے ترا ذکر اذانوں میں چلے

اب ترا درد مسلسل ہو، زمانوں میں چلے
جیسے اک میٹھی روایت ہو، گھرانوں مٰیں چلے
اب مِرے عشق پہ تکفیر کے فتوے آئیں
میں نے چاہا ہے تِرا ذکر اذانوں میں چلے
ہم کو بُراق تھا حاصل، نہ ہی جبریل ملا
پھر بھی جب تجھ کو تلاشا تو جہانوں میں چلے

یہ رنگ عاجزی جب سے مناجاتوں میں آیا ہے

یہ رنگِ عاجزی جب سے مناجاتوں میں آیا ہے
تکبر سا خدا میں، اور خدا والوں میں آیا ہے
سبھی ننھے فرشتے پھر سکولوں میں چلے آئے
کلیجہ اب کے یہ کیسا مِری ماؤں میں آیا ہے
وہی جو کہ پڑھا کرتا تھا شہروں میں مگر اب کے
گھٹن سے مر چلا جب تو وہیں گاؤں میں آیا ہے

پاگل نہ کر سکا تو اسے مار دوں گا میں

ایسی شدید روشنی میں جل مروں گا میں
اتنے حسین شخص کو کیسے سہوں گا میں
میں مرکزے سے دور ہوں پر دائرے میں ہوں
زندہ رہا تو تیرے گلے آ لگوں گا میں
مجھ سے مِرا وجود تو ثابت نہیں ہوا
تُو آنکھ بھر کے دیکھ لے ہونے لگوں گا میں

ابھی تو تم نے ہمارا زوال ہونا ہے

ابھی تو تم نے ہمارا زوال ہونا ہے
ابھی تو ہم نے تمہارا ملال ہونا ہے
ابھی تو تم نے فقط نام ہی پکارا ہے
ابھی تو ہم نے تمہارا کمال ہونا ہے
ابھی تو ایک ہی لمحہ ہوا ہے ملنے کا
ابھی تو ہم نے بچھڑنے کا سال ہونا ہے

سانپ رکھے ہیں آستینوں میں

سانپ رکھے ہیں آستینوں میں
ایک ہی صفت ہے مکینوں میں
میں اکیلا ہوں اس طرف، لیکن
کون رہتا ہے آبگینوں میں؟
میری وحشت پہ خوش نہیں ہونا
پھوٹ اچھی نہیں زمینوں میں

باقی رہی نہ خاک بھی میری زمانے میں

باقی رہی نہ خاک بھی میری زمانے میں
اور برق ڈھونڈتی ہے مجھے آشیانے میں
اب کس سے دوستی کی تمنا کریں گے ہم
اک تم جو مل گئے ہو سارے زمانے میں
اے حسن! میرے شوق کو الزام تو نہ دے
تیرا تو نام تک نہیں میرے فسانے میں

پھول اس خاکداں کے ہم بھی ہیں

پھول اس خاکداں کے ہم بھی ہیں 
مدعی دو جہاں کے ہم بھی ہیں 
بہتے دھارے پہ ہے قیام اپنا 
ساتھ موجِ رواں کے ہم بھی ہیں 
کہہ رہا ہے سکوتِ لالہ و گل 
زخم خوردہ زباں کے ہم بھی ہیں 

صبح سے شام کے آثار نظر آنے لگے

صبح سے شام کے آثار نظر آنے لگے 
پھر سہارے مجھے بے کار نظر آنے لگے 
اس مسافر کی نقاہت کا ٹھکانہ کیا ہے 
سنگِ منزل جسے دیوار نظر آنے لگے 
ان کے جوہر بھی کھلے اپنی حقیقت بھی کھلی 
ہم سے کِھنچتے ہی وہ تلوار نظر آنے لگے 

Wednesday 12 February 2020

مسند غم پہ جچ رہا ہوں میں

مسندِ غم پہ جچ رہا ہوں میں
اپنا سینہ کُھرچ رہا ہوں میں
اے سگانِ گرسنہ ایام
جوں غذا تم کو پچ رہا ہوں میں
اندرونِ حصارِ خاموشی
شور کی طرح مچ رہا ہوں میں

مجھ کو غصے میں ہنسی آتی ہے

جب نسیمِ سحری آتی ہے
ہم کو یاد ایک گلی آتی ہے
زہر اچھا ہے، اس کو پی کر
لذتِ تشنہ لبی آتی ہے
جاؤ بھی میں نے تمہیں دیکھ لیا
تم سے بس دل شکنی آتی ہے

بھول جاؤ مجھے

بھول جاؤ مجھے

وہ تو یوں تھا کہ ہم
اپنی اپنی ضرورت کی خاطر ملے
اپنے اپنے تقاضوں کو پورا کیا
اپنے اپنے ارادوں کی تکمیل میں
تِیرہ و تار خواہش کی سنگلاخ راہوں پہ چلتے رہے 

زندگی

زندگی

زندگی
اپنی آسائشوں کے لیے
بہرِ خیراتِ حرفِ دعا ایک دن
مجھ کو دستِ بُریدہ اٹھانا سکھا
یاد آتی ہوئی درد کی کروٹیں
بھول جانا سکھا

تمام عمر وہی قصۂ سفر کہنا

تمام عمر وہی قصۂ سفر کہنا
کہ آ سکا نہ ہمیں اپنے گھر کو گھر کہنا
جو دن چڑھے تو تیرے وصل کی دعا کرنا
جو رات ہو تو دعا ہی کو بے اثر کہنا
یہ کہہ کے ڈوب گیا آج آخری سورج
کے ہو سکے تو اسی شب کو اب سحر کہنا

Monday 10 February 2020

مثال خاک کہیں پر بکھر کے دیکھتے ہیں

مثالِ خاک کہیں پر بکھر کے دیکھتے ہیں
قرار مر کے ملے گا تو مر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے خواب مکمل کبھی نہیں ہوتے
سنا ہے عشق خطا ہے سو کر کے دیکھتے ہیں
کسی کی آنکھ میں ڈھل جاتا ہے ہمارا عکس
جب آئینے میں کبھی بن سنور کے دیکھتے ہیں

ہر ایک خواب کی تعبیر تھوڑی ہوتی ہے

ہر ایک خواب کی تعبیر تھوڑی ہوتی ہے
محبتوں کی یہ تقدیر تھوڑی ہوتی ہے
کبھی کبھی تو جدا بے سبب بھی ہوتے ہیں
سدا زمانے کی تقصیر تھوڑی ہوتی ہے
پلک پہ ٹھہرے ہوئے اشک سے کہا میں نے
ہر ایک درد کی تشہیر تھوڑی ہوتی ہے

تم ہنستے چہرے کے دکھ سے ناواقف ہو

بارش کے قطرے کے دکھ سے ناواقف ہو
تم ہنستے چہرے کے دکھ سے ناواقف ہو
تم نے صرف بچھڑ جانے کا کرب سہا ہے
پا کر کھو دینے کے دکھ سے ناواقف ہو
ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہیں ہم لیکن
تم میرے لہجے کے دکھ سے ناواقف ہو

میں آب عشق میں حل ہو گئی ہوں

میں آبِ عشق میں حل ہو گئی ہوں
ادھوری تھی، مکمل ہو گئی ہوں
پلٹ کر پھر نہیں آتا کبھی جو
میں وہ گزرا ہوا کل ہو گئی ہوں
بہت تاخیر سے پایا ہے خود کو
میں اپنے صبر کا پھل ہو گئی ہوں

مجھ سے ملنے میں مزا کیسا ہے آ کر دیکھو

مجھ سے ملنے میں مزہ کیسا ہے آ کر دیکھو
"دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو"
کون سنتا ہے زمانے میں غریبوں کی صدا
حکمرانوں کے ضمیروں کو جگا کر دیکھو
روٹھنے میں بھی، منانے میں مزہ ہوتا ہے
تم ذرا مجھ کو صنم میرے منا کر دیکھو

ہم ہیں بیٹھے ہوئے ادھر تنہا

ہم ہیں بیٹھے ہوئے ادھر تنہا
جاگتے وہ رہے ادھر تنہا
آج تارے بھی سو گئے جلدی
آج دیکھا وہاں قمر تنہا
دن گزرتا ہے بےکلی میں پھر
رات جاگے کوئی کدھر تنہا

لگائے رکھتا ہوں مٹی کو بندگی کی طرح

عارفانہ کلام نعتیہ کلام

لگائے رکھتا ہوں مٹی کو بندگی کی طرح
سمجھ کے خاکِ شفا جسم پہ زندگی کی طرح
چھٹی ہے تیرگی عالم سے ان کی آمد پر
چمک رہا ہے یہ چہرہ تو روشنی کی طرح
میں شکر کیوں نہ کروں آپ کا ہزار بار
سنبھال مجھ کو جو رکھا ہے امتی کی طرح

رات بھی باقی ہے صہبا بھی شیشہ بھی پیمانہ بھی

رات بھی باقی ہے صہبا بھی شیشہ بھی پیمانہ بھی

ایسے میں کیوں چھیڑ نہ دیں ہم ذکرِ غمِ جانانہ بھی

بستی میں ہر اک رہتا ہے، اپنا بھی بے گانہ بھی

حال کسی نے پوچھا دل کا، درد کسی نے جانا بھی

ہائے تجاہل، آج ہمِیں سے پوچھ رہے ہیں اہلِ خِرد

سنتے ہیں اس شہر میں رہتا ہے کوئی دیوانہ بھی

جس کو چاہا تھا نہ پایا جو نہ چاہا تھا ملا

جس کو چاہا تھا نہ پایا، جو نہ چاہا تھا ملا

بخششیں ہیں بے حساب اس کی ہمیں کیا کیا ملا

اجنبی چہروں میں پھر اک آشنا چہرہ ملا

پھر مجھے اس کے تعلق سے پتا اپنا ملا

اس چمن میں پھول کی صورت رہا میں چاک دل

اس چمن میں شبنم آسا میں سدا پیاسا ملا

مرے قریب سے گزرا اک اجنبی کی طرح

 مِرے قریب سے گزرا اک اجنبی کی طرح

وہ کج ادا جو ملا بھی تو زندگی کی طرح

ملا نہ تھا تو گماں اس پہ تھا فرشتوں کا

جو اب ملا ہے تو لگتا ہے آدمی کی طرح

کِرن کِرن اتر آئی ہے روزنِ دل سے

کسی حسیں کی تمنا بھی روشنی کی طرح

مہتاب ہے نہ عکس رخ یار اب کوئی

 مہتاب ہے نہ عکسِ رخِ یار اب کوئی

کاٹے تو کس طرح یہ شبِ تار اب کوئی

ممکن ہے دست و بازوئے قاتل تُو تھک بھی جائے

شاید تھمے نہ دیدۂ خوں بار اب کوئی

اہلِ جفا سے کہنا تراشیں صلیب و دار

شایانِ سر‌و قامتِ دلدار اب کوئی

کس پردۂ افلاک میں جانے ہے وہ پنہاں

کس پردۂ افلاک میں جانے ہے وہ پنہاں
اک نغمۂ بے تاب جو ہونٹوں کا ہے ارماں
پیغام کہاں لائیں گے نظروں کے پیامی
آنکھوں سے بہت دور ہے لیلیٰ کا شبستاں
مر جائیں گے اس سلسلۂ شب میں الجھ کر
آشفتہ سر و دشت یہاں گھر بھی مِرا یاں

عشق کو آگ کا دریا میں لکھوں کیسے لکھوں​

عشق کو آگ کا دریا میں لکھوں کیسے لکھوں​
حسن کو چاند سا چہرہ میں لکھوں کیسے لکھوں​
کیا سفر نامۂ صحرائے محبت میں لکھوں​
دشتِ آشوب میں جلنا میں لکھوں کیسے لکھوں​
ڈوب کر کیا کوئی ابھرا ہے سفینہ دل کا​
بحرِ کلفت سے ابھرنا میں لکھوں کیسے لکھوں​

Saturday 8 February 2020

اس کی محبتوں کے تھے سارے سراب منفرد

اس سے ملے تھے جس قدر تھے وہ عذاب منفرد 
اس کی محبتوں کے تھے سارے سراب منفرد
تیری ہر ایک بات کی خوشبو ہے میرے چار سُو
تیرے سوال بھی حسیں، تیرے جواب منفرد
آنکھوں سے بہہ رہی ہے جو آیتِ عشق اس کی خیر
جلوۂ ناز!  تیری خیر، تیرا حجاب منفرد

دوریاں نہیں مٹتیں

دُوریاں نہیں مٹتیں

عارضی محبت میں
سرسری تعلق کے
جھوٹ موٹ وعدوں کو
توڑنا ہی اچھا ہے
کون دل کو سمجھائے

کیوں سوگوں میں چھوڑ گئے ہو

پھر روگوں میں چھوڑ گئے ہو
کن لوگوں میں چھوڑ گئے ہو
ہنستے ہنستے جانے والے
کیوں سوگوں میں چھوڑ گئے ہو
ہم کو دردوں اور دُکھوں کے
سنجوگوں میں چھوڑ گئے ہو

یہ مسئلہ تو در و بام کا نہیں جانم

یہ مسئلہ تو در و بام کا نہیں جانم
کہ وقت صبح کا یا شام کا نہیں جانم
مِری تو ساری ریاضت ہی رائیگاں ٹھہری
سو واقعی میں کسی کام کا نہیں جانم
تجھے میں کیسے ملوں شب میں زخم گنتے ہوئے
یہ وقت بھی مِرے آرام کا نہیں جانم

اگر درد محبت سے نہ انساں آشنا ہوتا

اگر دردِ محبت سے نہ انساں آشنا ہوتا
نہ کچھ مرنے کا غم ہوتا نہ جینے کا مزا ہوتا
بہارِ گل میں دیوانوں کا صحرا میں پرا ہوتا
جدھر اٹھتی نظر کوسوں تلک جنگل ہرا ہوتا
مۓ گلرنگ لٹتی یوں درِ مے خانہ وا ہوتا
نہ پینے کی کمی ہوتی نہ ساقی سے گِلا ہوتا

مری بے خودی ہے وہ بے خودی کہ خودی کا وہم و گماں نہیں

مِری بیخودی ہے وہ بیخودی کہ خودی کا وہم و گماں نہیں
یہ سرورِ ساغر مۓ نہیں، یہ خمارِ خواب گراں نہیں
جو ظہورِ عالم ذات ہے، یہ فقط ہجومِ صفات ہے
ہے جہاں کا اور وجود کیا، جو طلسمِ وہم و گماں نہیں
یہ حیات عالمِ خواب ہے، نہ عذاب ہے، نہ ثواب ہے
وہ کفر و دِیں میں خراب ہے، جسے علم رازِ نہاں نہیں

میں خودی میں مبتلا خود کو مٹانے کے لیے

میں خودی میں مبتلا خود کو مٹانے کے لیے
تُو نے تو ہر ذرے کو ضو دی جگمگانے کے لیے
ایک ادنیٰ سے پتنگے نے بنا دی جان پر
شمع نے کوشش تو کی تھی دل جلانے کے لیے
برقِ خِرمن سوز! اب رکھنا ذرا چشمِ کرم
چار تنکے پھر جڑے ہیں آشیانے کے لیے

ذرہ بھی اگر رنگ خدائی نہیں دیتا

ذرّہ بھی اگر رنگ خدائی نہیں دیتا 
اندھا ہے تجھے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا 
دل کی بری عادت ہے جو مٹتا ہے بتوں پر 
واللہ! میں ان کو تو برائی نہیں دیتا 
کس طرح جوانی میں چلوں راہ پہ ناصح 
یہ عمر ہی ایسی ہے سُجھائی نہیں دیتا 

Friday 7 February 2020

المیہ

المیہ

یہ ہمارے بدن
یوں تو دِکھنے میں اوروں کے جیسے ہیں
یعنی کہ دو ہاتھ، دو پاؤں، اک ناک اور سر
وغیرہ وغیرہ
مگر ہم درونِ بدن دوسروں سے
بہت مختلف ہیں

تمہارے ہونٹوں سے جس کا گلہ نکلتا ہے

تمہارے ہونٹوں سے جس کا گلہ نکلتا ہے
وہ دن ہمارے لیے بھی برا نکلتا ہے
کبھی بتا نہیں پائے تمہارے اشک ہمیں
ہمارے ذمے محبت کا کیا نکلتا ہے
سکوں کے واسطے کرتا ہے دل پسند جسے
وہ درد رات کا جاگا ہوا نکلتا ہے

سازشوں کے دور میں موسم نے یوں جکڑا ہمیں

سازشوں کے دور میں موسم نے یوں جکڑا ہمیں
عین ممکن ہے مورخ بھی لکھے اندھا ہمیں
 دوستی کی یہ ضروری شرط ہو جیسے کوئی
ہر قدم پر دوستوں نے دے دیا دھوکا ہمیں
جلتے خیموں میں ہماری نسل روندی جائے گی
یاد رکھے گی ہمارے بعد یہ دنیا ہمیں

موج در موج نظر آتا تھا سیلاب مجھے

موج در موج نظر آتا تھا سیلاب مجھے
پاؤں ڈالا تو یہ دریا لگا پایاب مجھے
شدتِ کرب سے کمہلا گئے چہرے کے خطوط
اب نہ پہچان سکیں گے مِرے احباب مجھے
ایک سایہ کہ مجھے چین سے سونے بھی نہ دے
ایک آواز کہ، کرتی رہے بے تاب مجھے

ذرا سی بات پہ ناراضگی اگر ہے یہی

ذرا سی بات پہ ناراضگی اگر ہے یہی
تو پھر نِبھے گی کہاں دوستی اگر ہے یہی​
تمہیں دعا بھی ہم آسودگی کی کیسے دیں
جو ہم نے دیکھی ہے آسودگی اگر ہے یہی​
ہمیں بکھرنا تو ہے کل نہیں تو آج سہی
ہمارا کیا ہے تمہاری خوشی اگر ہے یہی​

یہ ہمسفر جو تمہیں بے خبر سا لگتا ہے

یہ ہمسفر جو تمہیں بے خبر سا لگتا ہے
ہمیں یہ شخص بہت پُر خطر سا لگتا ہے
وہ ہمسفر تھا مگر اجنبی سا لگتا تھا
یہ اجنبی ہے مگر، ہمسفر سا لگتا ہے
اسی کے سائے میں سستا کے لوگ آگے بڑھے
جو ریگزار میں تنہا شجر، سا لگتا ہے

کتاب سادہ رہے گی کب تک، کبھی تو آغازِ باب ہو گا​

کتاب سادہ رہے گی کب تک، کبھی تو آغازِ باب ہو گا​
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی، کبھی تو ان کا حساب ہو گا​
وہ دن گئے جب کہ ہر ستم کو ادائے محبوب کہہ کے چپ تھے​
اٹھی جو اب ہم پہ اینٹ کوئی، تو اس کا پتھر جواب ہو گا​
سحر کی خوشیاں منانے والو، سحر کے تیور بتا رہے ہیں​
ابھی تو اتنی گھٹن بڑھے گی، کہ سانس لینا عذاب ہو گا​

دیکھتا ہی رہا پیالہ مجھے​

رات درکار تھا سنبھالا مجھے​
دیکھتا ہی رہا پیالہ مجھے​
جانے کس شام کا ستارہ ہوں​
جانے کس آنکھ نے اجالا مجھے​
میرے دل سے اتار دے نہ کہیں​
ایک دن یہ تِرا حوالہ مجھے​

سر اٹھایا تو سر رہے گا کیا

سر اٹھایا تو سر رہے گا کیا
خوف یہ عمر بھر رہے گا کیا
اس نے زنجیر کر کے رکھا ہے
ہم سے وہ بے خبر رہے گا کیا
پاؤں رہتے نہیں زمیں پہ تِرے
ہاتھ دستار پر رہے گا کیا

مٹی جب تک نم رہتی ہے

مَٹی جب تک نَم رہتی ہے
خوشبو تازہ دَم رہتی ہے
اپنی رو میں مست و غزل خواں
موجِ ہوائے غم رہتی ہے
ان جھیل سی گہری آنکھوں میں
اک لہر سی ہر دم رہتی ہے

سامنے جی سنبھال کر رکھنا​

سامنے جی سنبھال کر رکھنا​
پھر وہی اپنا حال کر رکھنا​
آ گئے ہو تو اس خرابے میں​
اب قدم دیکھ بھال کر رکھنا​
شام ہی سے برس رہی ہے رات​
رنگ اپنے سنبھال کر رکھنا​

عکس کو قید کہ پرچھائیں کو زنجیر کریں

عکس کو قید کہ پرچھائیں کو زنجیر کریں
ساعتِ ہجر! تجھے کیسے جہانگیر کریں
پاؤں کے نیچے کوئی شے ہے زمیں کی صورت
چند دن اور اسی وہم کی تشہیر کریں
شہرِ امید حقیقت میں نہیں بن سکتا
تو چلو اس کو تصور ہی میں تعمیر کریں

بہت بھیڑ تھی جب اکیلے ہوئے

ہوا تُو کہاں ہے؟ زمانے ہوئے
سمندر کے پانی کو ٹھہرے ہوئے
لہو سب کا سب آنکھ میں آ گیا
ہرے پھول سے جسم پیلے ہوئے
جنوں کا ہر اک نقش مِٹ کر رہا
ہوس کے سبھی خواب پورے ہوئے

آندھی کی زد میں شام تمنا جلائی جائے

آندھی کی زد میں شامِ تمنا جلائی جائے
جس طرح ہو لاج جنوں کی بچائی جائے
بے آب و گیاہ ہے یہ دل کا دشت بھی
اک نہر آنسوؤں کی یہاں بھی بہائی جائے
عاجز ہیں اپنے طالعِ بیدار سے بہت
ہر رات ہم کو کوئی کہانی سنائی جائے

Thursday 6 February 2020

اتنی ٹھنڈی آہ مت بھر ہوش کر پچھتائے گا

اتنی ٹھنڈی آہ مت بھر، ہوش کر، پچھتائے گا
اس طرح تو جسم میں خون اور بھی جم جائے گا
آپ سورج کو کہیں بھی دفن کر کے دیکھ لیں
جس جگہ بھی مل گیا موقع، وہیں اگ آئے گا
ختم ہونے دے کہانی، بھیگنے دے رات کو
خامشی کا زہر خود چوپال کو چڑھ جائے گا

بارشیں کم ہوں تو سیلاب بھی کم آتے ہیں

یہ جو چہروں پہ لیے گردِ الم آتے ہیں
یہ تمہارے ہی پشیمانِ کرم آتے ہیں
اتنا کھل کر بھی نہ رو، جسم کی بستی کو بچا
بارشیں کم ہوں تو سیلاب بھی کم آتے ہیں
تُو سنا!! تیری مسافت کی کہانی کیا ہے
میرے رستے میں تو ہر گام پہ خم آتے ہیں

ہم نے تو بے شمار بہانے بنائے ہیں

ہم نے تو بے شمار بہانے بنائے ہیں
کہتا ہے دل کہ بت بھی خدا نے بنائے ہیں
لے لے کے تیرا نام ان آنکھوں نے رات بھر
تسبیحِ انتظار کے دانے بنائے ہیں
ہم نے تمہارے غم کو حقیقت بنا دیا
تم نے ہمارے غم کے فسانے بنائے ہیں

پناہ مانگ کے بوسیدہ کاغذات سے وہ

پناہ مانگ کے بوسیدہ کاغذات سے وہ
ہوا میں آگ جلاتا ہے احتیاط سے وہ
چمن میں پھیلتی جاتی ہیں زرد تحریریں
اس آرزو میں کہ رکھ دے کتاب، ہاتھ سے وہ
ہر ایک راہ پہ انگلی پکڑ کے چلتا رہا
بچھڑ گیا ہے مگر پھر بھی اپنی ذات سے وہ

یہ ہتھیلی بھی مرے واسطے کیا لائی ہے

ٹیڑھی میڑھی سی لکیروں کو سجا لائی ہے
یہ ہتھیلی بھی مِرے واسطے کیا لائی ہے
رقص کرتی ہوئی لَو سر پہ اٹھا لائی ہے
سر قلم کر کے چراغوں کے ہوا لائی ہے
میری اوقات ہی کیا تھی کہ سراہا جاتا
مجھ کو مسند پہ بزرگوں کی دعا لائی ہے

عشق لکھتے ہوئے کتنے ہی قلم ٹوٹے ہیں

یوں تو پہلے بھی کئی بار ستم ٹوٹے ہیں
لیکن اس بار جو ٹوٹے ہیں تو ہم ٹوٹے ہیں
داستاں تشنۂ تکمیل پڑی ہے اب تک
عشق لکھتے ہوئے کتنے ہی قلم ٹوٹے ہیں
نارِ نمرود بھی گلزار ہوا چاہتی ہے
شور برپا ہے کہ آذر کے صنم ٹوٹے ہیں

نہ کوئی رابطہ میسج نہ کال خیر تو ہے

نہ کوئی رابطہ، میسج نہ کال، خیر تو ہے 
کہاں پہ گم ہو مِرے خوش جمال خیر تو ہے 
ابھی تو عمر نہيں ہے تمہارے جھڑنے کی 
ابھی سے ڈھلنے لگے خد  و خال، خیر تو ہے 
مِری تو خیر ہے، تم کیوں اٹھائے پھرتے ہو 
کسی کا ہجر، کسی کا وصال، خیر تو ہے 

شعر کہنے کی للک اور لپک لے بیٹھی

شعر کہنے کی للک اور لپک لے بیٹھی
شعبدہ باز کو شہرت کی چمک لے بیٹھی
بادشاہا! تجھے اِس بات کا ادراک نہيں
تیرے دربار کو خود تیری بڑھک لے بیٹھی
اک اشارے نے کہیں کا نہيں چھوڑا اس کو
قیمتی کار کو بوسیدہ سڑک لے بیٹھی

مری چوڑی کھنکتی ہے زمانہ ہو گیا ہے

مِری چوڑی کھنکتی ہے زمانہ ہو گیا ہے
وصی شاہا!! تِرا کنگن پرانا ہو گیا ہے
یہ رسمِ خودنمائی بھی نبھائی جا چکی ہے
تعارف جتنا ہونا تھا کہا نا، ہو گیا ہے
مِرے پاؤں زمیں پر لگنے والے اب نہیں ہیں
مِرا اک شخص کے دل میں ٹھکانہ ہو گیا ہے

پھر اس کے بعد وہ روٹھا رہا نہیں مانا

پھر اس کے بعد وہ روٹھا رہا، نہیں مانا
بس ایک بار ہی دل کا کہا، نہیں مانا
تو اس کی ذات کو کیا فرق پڑنے والا ہے
اگر کسی نے خدا کو خدا نہیں مانا
میں صبر و ضبط کی اچھی مثال ہوں، میں نے
بروں کی بات کا اکثر برا نہیں مانا

میں نے ہونٹوں سے اسے دیکھا بہت

گرچہ کمرے میں اندھیرا تھا بہت
میں نے ہونٹوں سے اسے دیکھا بہت
کب تلک آباد رہتیں کشتیاں
مجھ میں دریا کم تھے اور صحرا بہت
آئینہ دیکھا تو مایوسی ہوئی
میں تو اب بھی ویسا ہوں تھوڑا بہت

وقت کر دے نہ کہیں داغ میں تبدیل مجھے

وقت کر دے نہ کہیں داغ میں تبدیل مجھے
دیکھ! بھرتا چلا جاتا ہوں ابھی چھیل مجھے
جمع کرتا ہوں یہ رس کانٹوں سے قطرہ قطرہ
اتنی آساں بھی نہیں رنج کی تحصیل مجھے
کبھی دیوار سے تصویر اتاری تھی کوئی
اب کہیں دیکھوں تو چبھتی ہے کوئی کیل مجھے

میرے ہمدرد زمانے مجھے شرمندہ کر

آ مجھے مجھ سے بچانے، مجھے شرمندہ کر
میرے ہمدرد زمانے، مجھے شرمندہ کر
اپنی کیا تیری ضرورت بھی نہ سمجھی میں نے
چھوڑ آیا ہوں خزانے، مجھے شرمندہ کر
میں نے اوندھے ہی پڑے رہنے دیئے اپنے چراغ
جب کہا مجھ سے ہوا نے، مجھے شرمندہ کر

کاغذ تھا میں دیے پہ مجھے رکھ دیا گیا

کاغذ تھا میں دیے پہ مجھے رکھ دیا گیا
اک اور مرتبے پہ مجھے رکھ دیا گیا
اک بے بدن کا عکس بنایا گیا ہوں میں
بے آب آئینے پہ مجھے رکھ دیا گیا
کچھ تو کھنچی کھنچی سی تھی ساعت وصال کی
کچھ یوں بھی فاصلے پہ مجھے رکھ دیا گیا

اپنی بربادی کا نوحہ مسعود منور

اپنی بربادی کا نوحہ

کیا بود و باش پوچھو ہو شہ کے مصاحبو
"ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے"
ہاں، ہم نے مفلسی میں گزاری ہے زندگی
ہم کاسہ لیس تھے ہی نہیں شہریار کے
ہم تو سدا رہے ہیں فلک کی امان میں
ہم رہنے والے ہی نہ تھے خاکی دیار کے

کس کو ہے کس سے محبت، کون کس کا یار ہے

کس کو ہے کس سے محبت، کون کس کا یار ہے
زندگی اب، اجنبی لوگوں کا اک تہوار ہے
شاعروں کی غزلیہ اوقات، مت پوچھو میاں
شاعری کا شور، نفرت کا عذاب النار ہے
کتنی الجھن ہو رہی ہے کس قدر بے چین ہوں
تیری گپ شپ سے تہی یہ تیسرا اتوار ہے

عشق والوں نے تو پسپائی نہیں دیکھی ہے

کبھی ذلت کبھی رسوائی نہیں دیکھی ہے
عشق والوں نے تو پسپائی نہیں دیکھی ہے
حسنِ یوسف کے مجھے قصے سنانے والے
تُو نے چاہت یہ زلیخائی نہیں دیکھی ہے
اس نے چہرے پہ قصیدے تو بہت لکھے ہیں
لیکن اس دل پہ جمی کائی نہیں دیکھی ہے

ایسے موسم میں بھلا کون جدا ہوتا ہے

ایسے موسم میں بھلا کون جدا ہوتا ہے
جیسے موسم میں تُو ہر روز خفا ہوتا ہے
روز چھن جاتا ہے جینے کا سہارا ہم سے
روز آنکھوں میں کوئی خواب نیا ہوتا ہے
آؤ تاریک گزرگاہوں میں ڈھونڈیں ان کو
جن کی پلکوں پہ محبت کا دِیا ہوتا ہے

یاد اس کی اب تو رونق جاں بھی نہیں رہی

قندیلِ عشقِ نور فشاں بھی نہیں رہی
یاد اس کی اب تو رونقِ جاں بھی نہیں رہی
صحرا بس ایک قطرے میں غرقاب ہو گئے
اب آرزوئے تشنہ لباں بھی نہیں رہی
اب لوٹنا پڑے گا انا کے محاذ سے
اب طاقتِ گرفتِ کماں بھی نہیں رہی

تیری جنت سے میں نکلا ہوں ستارے لے کر

کوثرِ چشم کے بہتے ہوِئے دھارے لے کر
تیری جنت سے میں نکلا ہوں ستارے لے کر
بیکراں لگتا ہے اب مجھ کو یہ دریائے فراق
جانے کس سمت گیا ہے وہ کنارے لے کر
اب یہ سوچا ہے کہ گر گر کے سنبھلنا اچھا
کچھ وقار آیا نہ چلنے میں سہارے لے کر

خود سے مجھے ملا کے جدا ہو گیا تو بس

خود سے مجھے ملا کے جدا ہو گیا تو بس
غفلت سے بھی اگر وہ خفا ہو گیا تو بس
پہلے ہی وہ قدیم نظر مجھ سے خوش نہیں
میں تھوڑا سا بھی اور نیا ہو گیا تو بس
دنیا کو تیرے میرے تعلق پہ ناز ہے
تُو بھی مِرے خلاف کھڑا ہو گیا تو بس

Wednesday 5 February 2020

میری فردوس و گل ولالہ و نسریں کی زمیں

نیا کشمیر

میری فردوس و گل ولالہ و نسریں کی زمیں
تیرے پھولوں کی جوانی تِرے باغوں کی بہار
تیرے چشموں کی روانی تِرے دریاؤں کا حسن
تیرے کہساروں کی عظمت تِرے نغموں کی پھوار
کب سے ہیں شعلہ بدامان و جہنم بہ کِنار

گو آنکھ سے دور جا چکا تو

ہدیۂ عقیدت بر شہیدِ کشمیر مقبول بٹ 

گو آنکھ سے دور جا چکا تُو
روشن مگر چراغ سا تو
محروم لبوں کا حرف زندہ
مظلوم دلوں کا ہمنوا تو
میں بھی تیرا ہم سفر تھا لیکن
میں آبلہ پا تھا، برق پا تو

سارا شہر بلکتا ہے

سارا شہر بِلکتا ہے
پھر بھی کیسا سکتہ ہے
ہر کوئی تصویر نما
دور خلا میں تکتا ہے
گلیوں میں بارود کی بُو
یا پھر خون مہکتا ہے

کچھ سوچ کے مرنا چاہا تھا کچھ سوچ کے جینا چاہا ہے

اک آس کا دھندلا سایہ ہے، اک پاس کا تپتا صحرا ہے
کیا دیکھ رہے ہو آنکھوں میں، ان آنکھوں میں کیا رکھا ہے
جب کھونے کو کچھ پاس بھی تھا، تب پانے کا کچھ دھیان نہ تھا
اب سوچتے ہو کیوں، سوچتے ہو کیا، کھویا ہے کیا پایا ہے؟
میں جھوٹ کو سچ سے کیوں بدلوں اور رات کو دن میں کیوں گھولوں
کیا سننے والا بہرا ہے؟، کیا دیکھنے والا اندھا ہے؟

دل کسی صورت مگر آباد ہے

راستوں میں اک نگر آباد ہے
اس تصور ہی سے گھر آباد ہے
کیسی کیسی صورتیں گم ہو گئیں
دل کسی صورت مگر آباد ہے
کیسی کیسی محفلیں سُونی ہوئیں
پھر بھی دنیا کس قدر آباد ہے

ہے آگہی کے بعد غم آگہی بہت

محسوس کیوں نہ ہو مجھے بے گانگی بہت
میں بھی تو اس دیار میں ہوں اجنبی بہت
آساں نہیں ہے کشمکشِ ذات کا سفر
ہے آگہی کے بعد غمِ آگہی بہت
ہر شخص پُرخلوص ہے ہر شخص باوفا
آتی ہے اپنی سادہ دلی پر ہنسی بہت

یہ رنگ ہجر کی شب جاگ کر نہیں آیا

کہیں وہ چہرۂ زیبا نظر نہیں آیا
گیا وہ شخص تو پھر لوٹ کر نہیں آیا
کہوں تو کس سے کہوں آ کے اب سرِ منزل
سفر تمام ہوا، ہم سفر نہیں آیا
صبا نے فاش کیا رمزِ بوئے گیسوئے دوست
یہ جرم اہلِ تمنا کے سر نہیں آیا

Monday 3 February 2020

وحشت تو کیا سوچ کے مجھ سے حصہ مانگنے آئی ہے

وحشت تُو کیا سوچ کے مجھ سے حصہ مانگنے آئی ہے
میرے پاس تو خود اپنی مقدار سے کم تنہائی ہے
کس نے سوچا عشق کے کھیل میں اس کا ساتھ نبھاؤں گا
کس نے میرا نام پکارا کس کی شامت آئی ہے؟
تم اب قیس کی شہرت دیکھنے لگ جاؤ تو مرضی ہے
ورنہ میں نے کچھ دن اس سے اچھی خاک اڑائی ہے

شہر میں چاروں طرف ایک سڑک جاتی ہے

 شہر میں چاروں طرف ایک سڑک جاتی ہے

میں بھٹکتا ہوں، میرے ساتھ بھٹک جاتی ہے

جس الاؤ سے مجھے تم نے گزارا، مجھ پر

ہاتھ رکھو تو میری مٹی کھنک جاتی ہے

اتنا مانوس ہوں خود جا کے پکڑ لاتا ہوں

گھر کی ویرانی اگر راہ بھٹک جاتی ہے

ہم تازہ گھٹن چھوڑ کے چھت پر نہیں جاتے

ماحول مناسب ہو تو اوپر نہیں جاتے
ہم تازہ گھٹن چھوڑ کے چھت پر نہیں جاتے
دیکھو مجھے اب میری جگہ سے نہ ہلانا
پھر تم مجھے ترتیب سے رکھ کر نہیں جاتے
بدنام ہیں صدیوں سے ہی کانٹوں کی وجہ سے
عادت سے مگر آج بھی کیکر نہیں جاتے

کوئی تصور ہے اور نہ تصویر صرف رنگوں میں بٹ رہی ہے

کوئی تصور ہے اور نہ تصویر صرف رنگوں میں بٹ رہی ہے
اس آئینے کے بدن سے ٹکرا کے روشنی ہی پلٹ رہی ہے
میرے قبیلے کے تاجروں کی نئے قبیلوں سے دوستی تھی
پھر ایک دن یہ پتہ چلا کہ ہماری تعداد گھٹ رہی ہے
کسی کے جانے سے ہر کسی کو ہمیشہ نقصان ہی ہوا ہے
ہمیں بس اک فائدہ ہوا ہے کہ عمر اچھے سے کٹ رہی ہے

چاند جب بام سے کہہ دیتا ہے اللہ حافظ

چاند جب بام سے کہہ دیتا ہے اللہ حافظ
دل بھی ہر کام سے کہہ دیتا ہے اللہ حافظ
گونجتے رہتے ہیں الفاظ مِرے کانوں میں
تُو تو آرام سے کہہ دیتا ہے اللہ حافظ
کھینچتا رہتا ہے فنکار لکیریں، اور پھر
صورتِ خام سے کہہ دیتا ہے اللہ حافظ

دل کے سمندروں کو نہ پایاب دیکھنا

دل کے سمندروں کو نہ پایاب دیکھنا
ہر گام اپنے آپ کو غرقاب دیکھنا
گہرائیوں میں ڈوبنا، گوہر تلاشنا
گویا کہ چشمِ بحر میں نیلاب دیکھنا
دریا کا پانی گھونٹ بنا کوہسار کا
آنکھیں ہوئی ہیں وقت کی خونناب دیکھنا

جینے دے گا وہ مجھے اور نہ مرنے دے گا

جینے دے گا وہ مجھے اور نہ مرنے دے گا
اپنی مرضی سے کوئی کام نہ کرنے دے گا
وضع داری بھی ہے اس میں تو حیا داری بھی
نہ سمیٹے گا وہ خود کو، نہ بکھرنے دے گا
اک بلندی پہ مجھے اس نے بِٹھا رکھا ہے
وہ زمیں پر بھی مجھے پاؤں نہ دھرنے دے گا

Saturday 1 February 2020

بوتل کھلی ہے رقص میں جام شراب ہے

بوتل کھلی ہے رقص میں جامِ شراب ہے
اے مۓ کشو! تمہاری دعا کامیاب ہے
ایسے حسین وقت میں پینا ثواب ہے
ساقی ہے، چاندنی ہے، چمن ہے، شباب ہے
کیوں میکدے میں شیخ جی بنتے ہو پارسا
نظریں بتا رہی ہیں کہ نیت خراب ہے

ایسا ملا ہے درد دل جس کی کوئی دوا نہیں

کس کو سناؤں حالِ غم کوئی غم آشنا نہیں
ایسا ملا ہے دردِ دل جس کی کوئی دوا نہیں
میری نمازِ عشق کو شیخ سمجھ سکے گا کیا
اس نے درِ حبیب پہ سجدہ کبھی کِیا نہیں
مجھ کو خدا سے آشنا کوئی بھلا کرے گا کیا
میں تو صنم پرست ہوں، میرا کوئی خدا نہیں

ہر گھڑی پیش نظر عشق میں کیا کیا نہ رہا

ہر گھڑی پیش نظر عشق میں کیا کیا نہ رہا
میرا دل بس تِری تصویر کا دیوانہ رہا
یہ ستم مجھ پہ مِرے عشق کا اچھا نہ رہا
تجھ کو دیکھا تو مِرا دل مرا اپنا نہ رہا
ایسا مدہوش کیا تیری تجلی نے مجھے
طور بھی میرے لیے وجہِ تماشہ نہ رہا

جو اجنبی تھے وہی ان کے رازداں نکلے

مقربین میں رمز آشنا کہاں نکلے
جو اجنبی تھے وہی ان کے رازداں نکلے
حرم سے بھاگ کے پہنچے جو دَیرِ راہب میں
تو اہلِ دَیر ہمارے مزاج داں نکلے
بہت قریب سے دیکھا جو فوجِ اعداء کو
تو ہر قطار میں یارانِ مہرباں نکلے

شہر جاناں کو ابھی دور بہت دور سمجھ

تجھ سے خفگی یہ روش ہم سے بہت دور سمجھ
آپ اپنے سے الجھ جائیں تو معذور سمجھ
تُو بھی تو وضعِ محبت سے ہے ناچار بہت
ان کو بھی قاعدۂ ناز سے مجبور سمجھ
آبگینوں کی طبیعت کا تقاضا ہے شکست
دل شکستہ ہو کہ ثابت ہوں انہیں چُور سمجھ

خود محبت کو محبت نے کہیں کا نہ رکھا

دل کو احساس کی شدت نے کہیں کا نہ رکھا
خود محبت کو محبت نے کہیں کا نہ رکھا
بُوئے گل اب تجھے احساس ہوا بھی کہ تجھے
تیری آوارہ طبیعت نے کہیں کا نہ رکھا
تم کو ہر شخص سے ہے چشمِ مروت کی امید
تم کو چشمِ مروت نے کہیں کا نہ رکھا

حصار درد میں ہیں رنج و غم کے مارے ہوئے

حصارِ درد میں ہیں رنج و غم کے مارے ہوئے
اس ایک شخص کو مدت ہوئی پکارے ہوئے
الگ الگ ہیں، مگر ساتھ ساتھ چلنا ہے
ہم ایک سمت کو جاتے ندی کنارے ہوئے
خود اپنے ہاتھ سے اس نے خزاں کو سونپ دیا
خود اسکے ہاتھ کے شیشے میں ہیں اتارے ہوئے

وفا کرنے پہ بھی الزام اس کے سر گیا آخر

شکستہ دل، تہی دامن، بچشمِ تر گیا آخر
صنم مل کر ہمیں پِھر آج تنہا کر گیا آخر
غریبِ شہر تھا خاموش رہنے کی سزا پائی
وفا کرنے پہ بھی الزام اس کے سر گیا آخر
بڑھا کر ہاتھ الفت کا سدا کی بے کلی دے دی
تمہاری چاہ کر کے ایک شاعر مر گیا آخر

عشق چاہت دوستی سے اختلاف اس نے کیا

عشق، چاہت، دوستی سے، اختلاف اس نے کیا
دل کے ہر اِک فیصلے سے انحراف اس نے کیا
تب کہیں جا کر کھلے، اس پر رموزِ بندگی
اپنے اندر بیٹھ کر جب اعتکاف اس نے کیا
غیر ممکن ہے وہ اب بھرنا کسی تدبیر سے
دل کی دیواروں کے اندر جو شگاف اس نے کیا

کب وہ دل پر نگاہ کرتا ہے

کب وہ دل پر نگاہ کرتا ہے 
یونہی رسماً نباہ کرتا ہے 
شعرمیں دردِ دل سناتا ہوں
اس پہ بھی واہ واہ کرتا ہے 
میرے اشعار پر کہا اس نے 
'یونہی کاغذ سیاہ کرتا ہے' 

وہی عذر ہیں اور بہانے بہت ہیں

وہی عذر ہیں اور بہانے بہت ہیں 
حقیقت کی تہہ میں فسانے بہت ہیں 
جگر سوختہ، دل حزیں، چشم پُرنم
غمِ یار! تیرے ٹھکانے بہت ہیں 
عبث ان سے امیدِ امن و اماں ہے 
ابھی تو انہیں سر کٹانے بہت ہیں 

خرد نے گھات کرنی تھی سو کر لی

خرد نے گھات کرنی تھی سو کر لی
جنوں کو مات کرنی تھی سو کر لی
تجھے وعدہ شکن ہم جانتے تھے
گلی میں رات کرنی تھی سو کر لی
دعا کا حشر جو ہونا ہے ہو گا
خدا سے بات کرنی تھی سو کر لی