Thursday, 6 February 2020

کاغذ تھا میں دیے پہ مجھے رکھ دیا گیا

کاغذ تھا میں دیے پہ مجھے رکھ دیا گیا
اک اور مرتبے پہ مجھے رکھ دیا گیا
اک بے بدن کا عکس بنایا گیا ہوں میں
بے آب آئینے پہ مجھے رکھ دیا گیا
کچھ تو کھنچی کھنچی سی تھی ساعت وصال کی
کچھ یوں بھی فاصلے پہ مجھے رکھ دیا گیا
منہ مانگے دام دے کے خریدا اور اس کے بعد
اک خاص زاویے پہ مجھے رکھ دیا گیا
کل رات مجھ کو چوری کیا جا رہا تھا یار
اور میرے جاگنے پہ مجھے رکھ دیا گیا
اچھا بھلا پڑا تھا میں اپنے وجود میں
دنیا کے راستے پہ مجھے رکھ دیا گیا
پہلے تو میری مٹی سے مجھ کو کیا چراغ
پھر میرے مقبرے پہ مجھے رکھ دیا گیا
انجم ہوا کے زور پہ جانا ہے اس طرف
پانی کے بلبلے پہ مجھے رکھ دیا گیا

انجم سلیمی

No comments:

Post a Comment