Monday, 24 February 2020

روز دل میں حسرتوں کو جلتا بجھتا دیکھ کر

روز دل میں حسرتوں کو جلتا بجھتا دیکھ کر
تھک چکا ہوں زندگی کا یہ رویہ دیکھ کر
ریزہ ریزہ کر دیا جس نے مِرے احساس کو
کس قدر حیران ہے وہ مجھ کو یکجا دیکھ کر
کیا یہی محدود پیکر ہی حقیقت ہے مِری؟
سوچتا ہوں دن ڈھلے اب اپنا سایہ دیکھ کر
کچھ طلب میں بھی اضافہ کرتی ہیں محرومیاں
پیاس کا احساس بڑھ جاتا ہے صحرا دیکھ کر
میرے خوابوں پر بھی اس نے نام اپنا لکھ لیا
اب بھی کیوں خاموش ہوں میں یہ تماشا دیکھ کر
سچ تو یہ ہے سب کو اپنی جان پیاری ہے یہاں
اڑ گئے سارے پرندے پیڑ کٹتا دیکھ کر
شاد جانے جی رہے ہو کون سی دنیا میں تم
دنیا دنیا کر رہے ہو، اب بھی دنیا دیکھ کر

خوشبیر سنگھ شاد

No comments:

Post a Comment