روز دل میں حسرتوں کو جلتا بجھتا دیکھ کر
تھک چکا ہوں زندگی کا یہ رویہ دیکھ کر
ریزہ ریزہ کر دیا جس نے مِرے احساس کو
کس قدر حیران ہے وہ مجھ کو یکجا دیکھ کر
کیا یہی محدود پیکر ہی حقیقت ہے مِری؟
کچھ طلب میں بھی اضافہ کرتی ہیں محرومیاں
پیاس کا احساس بڑھ جاتا ہے صحرا دیکھ کر
میرے خوابوں پر بھی اس نے نام اپنا لکھ لیا
اب بھی کیوں خاموش ہوں میں یہ تماشا دیکھ کر
سچ تو یہ ہے سب کو اپنی جان پیاری ہے یہاں
اڑ گئے سارے پرندے پیڑ کٹتا دیکھ کر
شاد جانے جی رہے ہو کون سی دنیا میں تم
دنیا دنیا کر رہے ہو، اب بھی دنیا دیکھ کر
خوشبیر سنگھ شاد
No comments:
Post a Comment