میں خودی میں مبتلا خود کو مٹانے کے لیے
تُو نے تو ہر ذرے کو ضو دی جگمگانے کے لیے
ایک ادنیٰ سے پتنگے نے بنا دی جان پر
شمع نے کوشش تو کی تھی دل جلانے کے لیے
برقِ خِرمن سوز! اب رکھنا ذرا چشمِ کرم
منہ نہیں ہر ایک کا جو سختئ گردُوں سہے
کچھ کلیجہ چاہیے وہ زخم کھانے کے لیے
خوب بلبل کو سکھایا نالۂ مستانہ وار
خوب غنچے کو سمجھ دی مسکرانے کے لیے
اس قدر ارزاں ہوئی ہے آج کل جنسِ کمال
جھوٹے سِکے ڈھل رہے ہیں ہر خزانے کے لیے
خواب میں بھی اب نہیں شاعرؔ وہ گرمئ کلام
شمع سی اک رہ گئی ہے جھلملانے کے لیے
آغا شاعر قزلباش
No comments:
Post a Comment