بنجر زمیں کے واسطے آنسو سنبھال کر
میں لے چلا ہوں آگ سے دریا نکال کر
علم و ہنر کے واسطے پُرکھوں کے پاس بیٹھ
اک بات پوچھ، بات پہ ڈھیروں سوال کر
روکیں اگر یہ راستہ، سینے سے کھینچ لے
اوروں کے ساتھ ذکر میں شامل نہ کر مجھے
اک عمر کا رفیق ہوں، کچھ تو خیال کر
تُو لاکھ چاہے موڑنا، مڑنے کا میں نہیں
گوندھا گیا ہوں عشق کے سانچے میں ڈال کر
مجھ کو دکھا اے زاہدِ کامل! یہ معجزے
مشرق جنوب کر کہیں مغرب شمال کر
وہم و گمان، وسوے، اندیشۂ فسوں
اے عشق! تجھ پہ فرض ہے جینا محال کر
دن میں اگر کشادگی پھیلے تو جھوم، ناچ
راتیں اگر طویل ہوں ان میں دھمال کر
کچھ تو لگے کہ رات کا جاگا ہوا ہے تُو
محسن نمک ہی ڈال کے آنکھوں کو لال کر
محسن احمد
No comments:
Post a Comment