جس کو چاہا تھا نہ پایا، جو نہ چاہا تھا ملا
بخششیں ہیں بے حساب اس کی ہمیں کیا کیا ملا
اجنبی چہروں میں پھر اک آشنا چہرہ ملا
پھر مجھے اس کے تعلق سے پتا اپنا ملا
اس چمن میں پھول کی صورت رہا میں چاک دل
اس چمن میں شبنم آسا میں سدا پیاسا ملا
پھر قدم اٹھنے لگے ہیں شہر ناپُرساں کی سمت
میرے پائے شوق کو تو ایک ہی رستا ملا
دیکھ کر اس کو بھلا پھر کس کو دیکھا جائے ہے
مجمعِ اغیار میں بھی اس سے میں تنہا ملا
یوں ہوا رخصت رہی باقی نہ ملنے کی امید
یوں ہوا جیسے ہو مدت کا کوئی بچھڑا ملا
شاہد عشقی
No comments:
Post a Comment