Friday, 7 February 2020

بہت بھیڑ تھی جب اکیلے ہوئے

ہوا تُو کہاں ہے؟ زمانے ہوئے
سمندر کے پانی کو ٹھہرے ہوئے
لہو سب کا سب آنکھ میں آ گیا
ہرے پھول سے جسم پیلے ہوئے
جنوں کا ہر اک نقش مِٹ کر رہا
ہوس کے سبھی خواب پورے ہوئے
مناظر بہت دور اور پاس ہیں
مگر آئینے سارے دھندلے ہوئے
جہاں جائیے، ریت کا سلسلہ
جِدھر دیکھیے، شہر اجڑے ہوئے
بڑا شور تھا جب سماعت گئی
بہت بھیڑ تھی جب اکیلے ہوئے
ہنسو آسماں بے افق ہو گیا
اندھیرے گھنے اور گہرے ہوئے
سنو، اپنی ہی بازگشتیں سنو
کرو یاد افسانے بھولے ہوئے
چلو جنگلوں کی طرف پھر چلو
بلاتے ہیں پھر لوگ بچھڑے ہوئے

شہریار خان

No comments:

Post a Comment