Thursday, 13 February 2020

میں نے چاہا ہے ترا ذکر اذانوں میں چلے

اب ترا درد مسلسل ہو، زمانوں میں چلے
جیسے اک میٹھی روایت ہو، گھرانوں مٰیں چلے
اب مِرے عشق پہ تکفیر کے فتوے آئیں
میں نے چاہا ہے تِرا ذکر اذانوں میں چلے
ہم کو بُراق تھا حاصل، نہ ہی جبریل ملا
پھر بھی جب تجھ کو تلاشا تو جہانوں میں چلے
ہم نے ہر دور میں ہاتھوں پہ لہو دیکھا ہے
جیسے سب تیر ہمیشہ ہی کمانوں میں چلے
ان فضاؤں میں تِرا نام کہاں جچتا ہے
اب تِرا ذکر چلے بھی تو فسانوں میں چلے
تا ابد وقت کو چلنا نہ میسر ہو گا
دو قدم تُو جو مِرے ساتھ زمانوں میں چلے
کل کو جس راہ پہ چلنے سے ڈراتے تھے سبھی
اب اسی راہ کو ضد ہے مِرے پانوں میں چلے
مِرے ہارے ہوئے لاشے پہ مِرے یاروں کے
ایسے نشتر تھے خدایا! کہ زبانوں میں چلے

صہیب مغیرہ صدیقی

No comments:

Post a Comment