یہ رنگِ عاجزی جب سے مناجاتوں میں آیا ہے
تکبر سا خدا میں، اور خدا والوں میں آیا ہے
سبھی ننھے فرشتے پھر سکولوں میں چلے آئے
کلیجہ اب کے یہ کیسا مِری ماؤں میں آیا ہے
وہی جو کہ پڑھا کرتا تھا شہروں میں مگر اب کے
ہزاروں بار ٹوٹا ہوں، گرا ہوں، گر کے اٹھا ہوں
توازن تب کہیں جا کر مِری باتوں میں آیا ہے
مِرے یارو! ہمارے قہقہے اب یاد آتے ہیں
رکھاؤ اس طرح کا اب ملاقاتوں میں آیا ہے
اسے دھتکارنے سے کیا، بلاؤ، پاس بٹھلاؤ
یہ صدیوں دھوپ میں چل کر تِری چھاؤں میں آیا ہے
اٹھا نہ اب مغیرہ کو پڑا کچھ دیر رہنے دے
یہ گر کے عرش سے سیدھا تِرے پاؤں میں آیا ہے
صہیب مغیرہ صدیقی
No comments:
Post a Comment