Monday, 10 February 2020

رات بھی باقی ہے صہبا بھی شیشہ بھی پیمانہ بھی

رات بھی باقی ہے صہبا بھی شیشہ بھی پیمانہ بھی

ایسے میں کیوں چھیڑ نہ دیں ہم ذکرِ غمِ جانانہ بھی

بستی میں ہر اک رہتا ہے، اپنا بھی بے گانہ بھی

حال کسی نے پوچھا دل کا، درد کسی نے جانا بھی

ہائے تجاہل، آج ہمِیں سے پوچھ رہے ہیں اہلِ خِرد

سنتے ہیں اس شہر میں رہتا ہے کوئی دیوانہ بھی

آخرِ صف تک آتے آتے، ہر پیمانہ چھلکا ہے

لیکن ہم تک آتے آتے، ٹوٹ گیا پیمانہ بھی

جس سے دل کا زخم ہرا ہو ایسا کوئی ذکر نہ چھیڑ

جس میں اس کا نام نہ آئے، ایسا اک افسانہ بھی

شہر کی رنگا رنگ نگارو! دل والوں کی قدر کرو

محفل میں دونوں جلتے ہیں، شمع بھی پروانہ بھی


شاہد عشقی 

No comments:

Post a Comment