Wednesday 12 February 2020

بھول جاؤ مجھے

بھول جاؤ مجھے

وہ تو یوں تھا کہ ہم
اپنی اپنی ضرورت کی خاطر ملے
اپنے اپنے تقاضوں کو پورا کیا
اپنے اپنے ارادوں کی تکمیل میں
تِیرہ و تار خواہش کی سنگلاخ راہوں پہ چلتے رہے 
پھر بھی راہوں میں کتنے شگوفے کِھلے
وہ تو یوں تھا کہ بڑھتے گئے سلسلے
ورنہ، یوں ہے کہ ہم
اجنبی کل بھی تھے
اجنبی اب بھی ہیں
اب بھی یوں ہے کہ تم
ہر قسم توڑ دو
سب ضدیں چھوڑ دو
اور اگر یوں نہ تھا تو یونہی سوچ لو
تم نے اقرار ہی کب کیا تھا کہ میں
تم سے منسوب ہوں
میں نے اصرار ہی کب کیا تھا کہ تم
یاد آؤ مجھے
بھول جاؤ مجھے

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment