بھول جاؤ مجھے
وہ تو یوں تھا کہ ہم
اپنی اپنی ضرورت کی خاطر ملے
اپنے اپنے تقاضوں کو پورا کیا
اپنے اپنے ارادوں کی تکمیل میں
پھر بھی راہوں میں کتنے شگوفے کِھلے
وہ تو یوں تھا کہ بڑھتے گئے سلسلے
ورنہ، یوں ہے کہ ہم
اجنبی کل بھی تھے
اجنبی اب بھی ہیں
اب بھی یوں ہے کہ تم
ہر قسم توڑ دو
سب ضدیں چھوڑ دو
اور اگر یوں نہ تھا تو یونہی سوچ لو
تم نے اقرار ہی کب کیا تھا کہ میں
تم سے منسوب ہوں
میں نے اصرار ہی کب کیا تھا کہ تم
یاد آؤ مجھے
بھول جاؤ مجھے
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment