پناہ مانگ کے بوسیدہ کاغذات سے وہ
ہوا میں آگ جلاتا ہے احتیاط سے وہ
چمن میں پھیلتی جاتی ہیں زرد تحریریں
اس آرزو میں کہ رکھ دے کتاب، ہاتھ سے وہ
ہر ایک راہ پہ انگلی پکڑ کے چلتا رہا
خفا تھے بحر سے کچھ ڈوبتے سفینے، مگر
ہُوا ہے خشک جزیروں کی واردات سے وہ
سحر ہوئی تو اندھیرے رگوں میں چلنے لگے
یہ شور تھا کہ بغاوت کرے گا رات سے وہ
زباں کی زد میں رہے ذائقہ جدائی کا
اسی لیے ہے گریزاں مذاکرات سے وہ
غلام محمد قاصر
No comments:
Post a Comment