Thursday, 6 February 2020

پناہ مانگ کے بوسیدہ کاغذات سے وہ

پناہ مانگ کے بوسیدہ کاغذات سے وہ
ہوا میں آگ جلاتا ہے احتیاط سے وہ
چمن میں پھیلتی جاتی ہیں زرد تحریریں
اس آرزو میں کہ رکھ دے کتاب، ہاتھ سے وہ
ہر ایک راہ پہ انگلی پکڑ کے چلتا رہا
بچھڑ گیا ہے مگر پھر بھی اپنی ذات سے وہ
خفا تھے بحر سے کچھ ڈوبتے سفینے، مگر
ہُوا ہے خشک جزیروں کی واردات سے وہ
سحر ہوئی تو اندھیرے رگوں میں چلنے لگے
یہ شور تھا کہ بغاوت کرے گا رات سے وہ
زباں کی زد میں رہے ذائقہ جدائی کا
اسی لیے ہے گریزاں مذاکرات سے وہ

غلام محمد قاصر

No comments:

Post a Comment