Thursday, 13 February 2020

کہاں کا زخم کہاں پر دکھائی دینے لگا

زمیں کا آخری منظر دکھائی دینے لگا 
میں دیکھتا ہوا پتھر دکھائی دینے لگا 
وہ سامنے تھا تو کم کم دکھائی دیتا تھا
چلا گیا تو برابر دکھائی دینے لگا
کچھ اتنے غور سے دیکھا چراغ جلتا ہوا
کہ میں چراغ کے اندر دکھائی دینے لگا
میں ایک گھر میں بٹا رہ گیا، اور آخر کار
وہی ہوا نا کہ گھر گھر دکھائی دینے لگا
وہ اس طرح سے مجھے دیکھتا ہوا گزرا
میں اپنے آپ کو بہتر دکھائی دینے لگا
پہنچ گیا تِری آنکھوں کے اس کنارے تک
جہاں سے مجھ کو سمندر دکھائی دینے لگا
نشانِ ہجر بھی ہے وصل کی نشانیوں میں
کہاں کا زخم، کہاں پر دکھائی دینے لگا

شاہین عباس

No comments:

Post a Comment