زمیں کا آخری منظر دکھائی دینے لگا
میں دیکھتا ہوا پتھر دکھائی دینے لگا
وہ سامنے تھا تو کم کم دکھائی دیتا تھا
چلا گیا تو برابر دکھائی دینے لگا
کچھ اتنے غور سے دیکھا چراغ جلتا ہوا
میں ایک گھر میں بٹا رہ گیا، اور آخر کار
وہی ہوا نا کہ گھر گھر دکھائی دینے لگا
وہ اس طرح سے مجھے دیکھتا ہوا گزرا
میں اپنے آپ کو بہتر دکھائی دینے لگا
پہنچ گیا تِری آنکھوں کے اس کنارے تک
جہاں سے مجھ کو سمندر دکھائی دینے لگا
نشانِ ہجر بھی ہے وصل کی نشانیوں میں
کہاں کا زخم، کہاں پر دکھائی دینے لگا
شاہین عباس
No comments:
Post a Comment