Monday, 10 February 2020

مہتاب ہے نہ عکس رخ یار اب کوئی

 مہتاب ہے نہ عکسِ رخِ یار اب کوئی

کاٹے تو کس طرح یہ شبِ تار اب کوئی

ممکن ہے دست و بازوئے قاتل تُو تھک بھی جائے

شاید تھمے نہ دیدۂ خوں بار اب کوئی

اہلِ جفا سے کہنا تراشیں صلیب و دار

شایانِ سر‌و قامتِ دلدار اب کوئی

ہر عہد میں اگرچہ رہا جرم حرفِ حق

شاید نہ آئے ہم سا گنہ گار اب کوئی

ہاں اے جنون سرمد و منصور کو نوید

اس دھج سے آئے گا نہ سرِ دار اب کوئی

شہرِ ہوس میں قدرِ وفا تیرے دم سے تھی

اس جنس کا نہیں ہے خریدار اب کوئی

جتنا لہو تھا صرفِ قبا ہو چکا تمام

کوئے وفا میں آئے نہ زِنہار اب کوئی


شاہد عشقی

No comments:

Post a Comment