تمہارے بعد سبھی دوست، سب پرائے گئے
ہم آسماں کی پناہوں سے یوں گرائے گئے
عجیب شان سے روشن تھے میرے ماتھے پر
بنامِ بخت، وہ کچھ حرف جب بجھائے گئے
بڑی طویل خموشی تھی میری خلوت میں
نہ شور و غل، نہ چھناکا، بس اک دبیز سی چپ
یہ کیسے طور سے اس دل میں بت گرائے گئے
خلیجِ وقت میں گر وہ بھی ڈوب جائیں، تو کیا
بہ اہتمام جو کچھ لوگ تھے کمائے گئے
سیماب ظفر
No comments:
Post a Comment