نظرانداز ہیں، گھائل پڑے ہیں
کئی دریا، کئی جنگل پڑے ہیں
نظر اٹھی ہے اس کی میری جانب
کئی پیشانیوں پہ بل پڑے ہیں
میں اس کا خط بہا کے آ رہا ہوں
اسے کہنا کہ کل ٹیرس پہ آئے
اسے کہنا کہ بادل چل پڑے ہیں
کہانی چھوڑ مت دینا کہ اس میں
ابھی مجھ سے بھی کچھ پاگل پڑے ہیں
علی زریون
No comments:
Post a Comment