Wednesday, 12 February 2020

تمام عمر وہی قصۂ سفر کہنا

تمام عمر وہی قصۂ سفر کہنا
کہ آ سکا نہ ہمیں اپنے گھر کو گھر کہنا
جو دن چڑھے تو تیرے وصل کی دعا کرنا
جو رات ہو تو دعا ہی کو بے اثر کہنا
یہ کہہ کے ڈوب گیا آج آخری سورج
کے ہو سکے تو اسی شب کو اب سحر کہنا
میں اب سکوں سے رہوں گا کہ آ گیا ہے مجھے
کمالِ بے ہنری کو بھی اک ہنر کہنا
وہ شخص مجھ سے بہت بدگمان سا رہتا ہے
یہ بات اس سے کہو بھی تو سوچ کر کہنا
کبھی وہ چاند جو پوچھے کے شہر کیسا ہے
بجھے بجھے ہوئے لگتے ہیں بام و در کہنا
ہمارے بعد عزیزو! ہمارا افسانہ
کبھی جو یاد بھی آئے تو مختصر کہنا
وہ ایک میں کے میرا شہر بھر کو اپنے سوا
تیری وفا کے تقاضوں سے بے خبر کہنا
وہ اک تُو کہ تیرا ہر کسی کو میرے بغیر
معاملاتِ محبت میں معتبر کہنا
وفا کی طرز ہے محسن کے مصلحت کیا ہے
یہ تیرا دشمنِ جان کو بھی چارہ گر کہنا

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment