تمہارے ہونٹوں سے جس کا گلہ نکلتا ہے
وہ دن ہمارے لیے بھی برا نکلتا ہے
کبھی بتا نہیں پائے تمہارے اشک ہمیں
ہمارے ذمے محبت کا کیا نکلتا ہے
سکوں کے واسطے کرتا ہے دل پسند جسے
میں چاہتا ہوں کریں شاعری نئے لڑکے
نئے ہوں لب تو سخن بھی نیا نکلتا ہے
یہ وصف صرف تِرے نقشِ پا سے ہے منسوب
اگر کرید کے دیکھیں دِیا نکلتا ہے
جہانِ خواب میں برسوں کی بھاگ دوڑ کے بعد
بھٹک کے آدمی مٹی میں جا نکلتا ہے
ہمارے شہر میں اس کا کوئی مقام نہیں
جو زندگی سے زیادہ بڑا نکلتا ہے
یہ پیڑ اس لیے ہم سے گریز کرتے ہیں
ہمارا زخم زیادہ ہرا نکلتا ہے
محیط ہوتی ہیں اس کی شبیں مہینوں پر
وہ دن جو دن میں کئی مرتبہ نکلتا ہے
کبیر اور بڑھے گا ہماری عمر کے ساتھ
بدن کے قرب سے جو فاصلہ نکلتا ہے
کبیر اطہر
No comments:
Post a Comment