Friday, 7 February 2020

تمہارے ہونٹوں سے جس کا گلہ نکلتا ہے

تمہارے ہونٹوں سے جس کا گلہ نکلتا ہے
وہ دن ہمارے لیے بھی برا نکلتا ہے
کبھی بتا نہیں پائے تمہارے اشک ہمیں
ہمارے ذمے محبت کا کیا نکلتا ہے
سکوں کے واسطے کرتا ہے دل پسند جسے
وہ درد رات کا جاگا ہوا نکلتا ہے
میں چاہتا ہوں کریں شاعری نئے لڑکے
نئے ہوں لب تو سخن بھی نیا نکلتا ہے
یہ وصف صرف تِرے نقشِ پا سے ہے منسوب
اگر کرید کے دیکھیں دِیا نکلتا ہے
جہانِ خواب میں برسوں کی بھاگ دوڑ کے بعد
بھٹک کے آدمی مٹی میں جا نکلتا ہے
ہمارے شہر میں اس کا کوئی مقام نہیں
جو زندگی سے زیادہ بڑا نکلتا ہے
یہ پیڑ اس لیے ہم سے گریز کرتے ہیں
ہمارا زخم زیادہ ہرا نکلتا ہے
محیط ہوتی ہیں اس کی شبیں مہینوں پر
وہ دن جو دن میں کئی مرتبہ نکلتا ہے
کبیر اور بڑھے گا ہماری عمر کے ساتھ
بدن کے قرب سے جو فاصلہ نکلتا ہے

کبیر اطہر

No comments:

Post a Comment