Saturday, 8 February 2020

اس کی محبتوں کے تھے سارے سراب منفرد

اس سے ملے تھے جس قدر تھے وہ عذاب منفرد 
اس کی محبتوں کے تھے سارے سراب منفرد
تیری ہر ایک بات کی خوشبو ہے میرے چار سُو
تیرے سوال بھی حسیں، تیرے جواب منفرد
آنکھوں سے بہہ رہی ہے جو آیتِ عشق اس کی خیر
جلوۂ ناز!  تیری خیر، تیرا حجاب منفرد
روزِ ازل سے اب تلک، باغ و بہشت کے سبھی
سارے گلاب اک طرف، تیرے گلاب منفرد
یار کا ورد ہی کروں، یار کی بندگی کروں
میرے گناہ چیخ اٹھے، تیرے ثواب منفرد
درس ملا ہے درد کا، باب پڑھا ہے عشق کا
میرا نصاب منفرد، میری کتاب منفرد
جس کا نہ اندمال ہے، زین یہ ایسا حال ہے
آیا ہے میرے زخم پر، ایسا شباب منفرد

زین شکیل

No comments:

Post a Comment