اس سے ملے تھے جس قدر تھے وہ عذاب منفرد
اس کی محبتوں کے تھے سارے سراب منفرد
تیری ہر ایک بات کی خوشبو ہے میرے چار سُو
تیرے سوال بھی حسیں، تیرے جواب منفرد
آنکھوں سے بہہ رہی ہے جو آیتِ عشق اس کی خیر
روزِ ازل سے اب تلک، باغ و بہشت کے سبھی
سارے گلاب اک طرف، تیرے گلاب منفرد
یار کا ورد ہی کروں، یار کی بندگی کروں
میرے گناہ چیخ اٹھے، تیرے ثواب منفرد
درس ملا ہے درد کا، باب پڑھا ہے عشق کا
میرا نصاب منفرد، میری کتاب منفرد
جس کا نہ اندمال ہے، زین یہ ایسا حال ہے
آیا ہے میرے زخم پر، ایسا شباب منفرد
زین شکیل
No comments:
Post a Comment