سازشوں کے دور میں موسم نے یوں جکڑا ہمیں
عین ممکن ہے مورخ بھی لکھے اندھا ہمیں
دوستی کی یہ ضروری شرط ہو جیسے کوئی
ہر قدم پر دوستوں نے دے دیا دھوکا ہمیں
جلتے خیموں میں ہماری نسل روندی جائے گی
یاد رکھے گی ہمارے بعد یہ دنیا ہمیں
پھر سنائی دے رہی ہے ہر طرف گھوڑوں کی ٹاپ
پھر نوید تشنگی دینے لگے دریا ہمیں
آدمی ہیں ہم نہیں ہیں پیڑ پر صابر رضا
بانٹنا ہو گا کڑکتی دھوپ میں سایا ہمیں
صابر رضا
عین ممکن ہے مورخ بھی لکھے اندھا ہمیں
دوستی کی یہ ضروری شرط ہو جیسے کوئی
ہر قدم پر دوستوں نے دے دیا دھوکا ہمیں
جلتے خیموں میں ہماری نسل روندی جائے گی
یاد رکھے گی ہمارے بعد یہ دنیا ہمیں
پھر سنائی دے رہی ہے ہر طرف گھوڑوں کی ٹاپ
پھر نوید تشنگی دینے لگے دریا ہمیں
آدمی ہیں ہم نہیں ہیں پیڑ پر صابر رضا
بانٹنا ہو گا کڑکتی دھوپ میں سایا ہمیں
صابر رضا
No comments:
Post a Comment