کیسے جانوں کہ جہاں خواب نما ہوتا ہے
جبکہ ہر شخص یہاں آبلہ پا ہوتا ہے
دیکھنے والوں کی آنکھوں میں نمی تیرتی ہے
سوچنے والوں کے سینے میں خلا ہوتا ہے
لوگ اس شہر کو خوشحال سمجھ لیتے ہیں
گھر کے بارے میں یہی جان سکا ہوں اب تک
جب بھی لوٹو، کوئی دروازہ کھلا ہوتا ہے
فاصلے اس طرح سمٹے ہیں نئی دنیا میں
اپنے لوگوں سے ہر اک شخص جدا ہوتا ہے
میرے محتاج نہیں ہیں یہ بدلتے موسم
مان لیتا ہوں، مگر دل بھی برا ہوتا ہے
چاندنی رات نے احساس دلایا ہے ملال
آدمی کتنے سرابوں میں گھِرا ہوتا ہے
صغیر ملال
No comments:
Post a Comment