Monday, 3 February 2020

وحشت تو کیا سوچ کے مجھ سے حصہ مانگنے آئی ہے

وحشت تُو کیا سوچ کے مجھ سے حصہ مانگنے آئی ہے
میرے پاس تو خود اپنی مقدار سے کم تنہائی ہے
کس نے سوچا عشق کے کھیل میں اس کا ساتھ نبھاؤں گا
کس نے میرا نام پکارا کس کی شامت آئی ہے؟
تم اب قیس کی شہرت دیکھنے لگ جاؤ تو مرضی ہے
ورنہ میں نے کچھ دن اس سے اچھی خاک اڑائی ہے
مجھ میں رہ کر آخر اس کو مشکل پیش تو آئے گی
مچھلی ستھرے پانی کی ہے، اور تالاب میں کائی ہے
اس نے مجھ کو تھوڑا بہت اگر کچھ بول دیا تو کیا
میں نے بھی تو اس کو اپنی ساری چُپ سنوائی ہے
جانے صبر کا پھل کیسا ہو، لیکن تیرے کہنے پر
امیدوں کا پانی دے کر گھر میں آس اُگائی ہے

دانش نقوی

No comments:

Post a Comment