خداوندا تنِ تنہا گیا ہے
سُوئے دریا مِرا پیاسا گیا ہے
دِلا! تیرا یہ ہر اک پر بھروسہ
ہمیں تو مفت میں مروا گیا ہے
نہ جانے چاند نے کیا بات کی ہے؟
خدا اور آدمی سے ہار جایئ؟
یہ جملہ ہی غلط لکھا گیا ہے
بھلا ہو دوستا تیرا جو تجھ سے
ہمارا دیکھنا دیکھا گیا ہے
ازل سے لے کے اب تک، عورتوں کو
سوایئ جسم، کیا سمجھا گیا ہے؟
خدا کی شاعرى ہوتی ہے عورت
جسے پیروں تلے روندا گیا ہے
ہمیں انساں نہیں کوئی سمجھتا
تمہیں تو پھر خدا سمجھا گیا ہے
تمہارے چاہنے والوں سے لڑنے
تمہارا چاہنے والا گیا ہے
جنابِ قیس بے حد معذرت پر
مِرا اس دشت پر دل آ گیا ہے
خدا معلوم تیرا کیا بنے اب
کہ تُو ’ہونے‘ کا مطلب پا گیا ہے
علی اک شخص کا شوقِ حکومت
مِری پوری زمیں ہی کھا گیا ہے
گریبانوں میں کیا جھانکیں کہ اپنے
گریبانوں میں اب رہ کیا گیا ہے؟
تمہیں دل کے چلے جانے پہ کیا غم؟
تمہارا کون سا اپنا گیا ہے؟
قسم ہے عشق کی انساں زمیں پر
برایئ عشق ہی بھیجا گیا ہے
کسی دن جائیں گے ملنے علی سے
سنا ہے دشت سے گھر آ گیا ہے
علی زریون
No comments:
Post a Comment