باقی رہی نہ خاک بھی میری زمانے میں
اور برق ڈھونڈتی ہے مجھے آشیانے میں
اب کس سے دوستی کی تمنا کریں گے ہم
اک تم جو مل گئے ہو سارے زمانے میں
اے حسن! میرے شوق کو الزام تو نہ دے
روئے لپٹ لپٹ کے غمِ دو جہاں سے ہم
وہ لذتیں ملیں ہمیں آنسو بہانے میں
ہر سانس کھنچ کے آئی ہے تلوار کی طرح
کیا جان پر بنی ہے غمِ دل چھپانے میں
ہنس ہنس کے سیف یوں نہ حکایاتِ دل سنا
آنسو چھلک رہے ہیں تِرے مسکرانے میں
سیف الدین سیف
No comments:
Post a Comment