ٹیڑھی میڑھی سی لکیروں کو سجا لائی ہے
یہ ہتھیلی بھی مِرے واسطے کیا لائی ہے
رقص کرتی ہوئی لَو سر پہ اٹھا لائی ہے
سر قلم کر کے چراغوں کے ہوا لائی ہے
میری اوقات ہی کیا تھی کہ سراہا جاتا
میں جو سردار نہ ہوتا تومیں مارا جاتا
میری دستار مِرے سر کو بچا لائی ہے
میں کسی اور کی سنتا ہی کہاں تھا مِرے عشق
مجھ کو اس دشت میں تیری ہی صدا لائی ہے
اب خدا جانتا ہے کس کا مقدر یہ بنے
تیری دہلیز تلک مجھ کو قضا لائی ہے
پہلے وہ حسن کو لفظوں میں بیاں کرتی رہی
بعد ازاں اپنی ہی تصویر اٹھا لائی ہے
خیمۂ خاک میں بیٹھا ہوں میں گم صم احمد
جستجو چاروں طرف مجھ کو گھما لائی ہے
احمد ساقی
No comments:
Post a Comment