Monday, 10 February 2020

مرے قریب سے گزرا اک اجنبی کی طرح

 مِرے قریب سے گزرا اک اجنبی کی طرح

وہ کج ادا جو ملا بھی تو زندگی کی طرح

ملا نہ تھا تو گماں اس پہ تھا فرشتوں کا

جو اب ملا ہے تو لگتا ہے آدمی کی طرح

کِرن کِرن اتر آئی ہے روزنِ دل سے

کسی حسیں کی تمنا بھی روشنی کی طرح

مِری نگاہ سے دیکھو تو ہم زباں ہو جاؤ

کہ دشمنی بھی کسی کی ہے دوستی کی طرح

نہ ملنے والے کناروں کا نام ٹھہرا شوق

گریز پا ہے جہاں حسن اک ندی کی طرح

نہ کھل سکا تو لہو ہو کے بہہ گیا ہے دل

کبھی کھِلا تو مہک اٹھے گا کلی کی طرح

ہزار شعر ہیں، اور ایک خامشی کی ادا

ہزار رنگ ہیں اور ایک سادگی کی طرح

بہت دنوں میں ملے ہیں ہم آج عؔشقی سے

نہیں وہ پھر بھی کوئی شخص ہے اسی کی طرح


شاہد عشقی

No comments:

Post a Comment