ہوا ناراض تھی ہم سے، کِنارا دور تھا ہم سے
سمندر تھا کہ یاں سے واں تلک بھرپور تھا ہم سے
خودی، خود آگہی، خودرائی جس میں جلوہ گر ہوتے
وہ آئینہ تو پہلے دن ہی چکنا چور تھا ہم سے
مزا بھی ہے سزا بھی ہے مسلسل رقص کرنے میں
خود اپنے کو بھی اک پردے میں رہ کر دیکھنا ہو گا
یہی جو آئینے میں ہے، ابھی مستور تھا ہم سے
مظفر اب یہی دنیا ہمیں نابود کر دے گی
یہ پیمانہ لبالب تھا کبھی، معمور تھا ہم سے
مظفر حنفی
No comments:
Post a Comment