مَٹی جب تک نَم رہتی ہے
خوشبو تازہ دَم رہتی ہے
اپنی رو میں مست و غزل خواں
موجِ ہوائے غم رہتی ہے
ان جھیل سی گہری آنکھوں میں
ہر ساز جدا کیوں ہوتا ہے
کیوں سنگت باہم رہتی ہے
کیوں آنگن ٹیڑھا لگتا ہے
کیوں پائل برہم رہتی ہے
اب ایسے سرکش قامت پر
کیوں تیغِ مِژہ خم رہتی ہے
کیوں آپ پریشاں رہتے ہیں
کیوں آنکھ رؔسا نم رہتی ہے
رسا چغتائی
No comments:
Post a Comment