ایک شاہزادی کے نام
پہاڑی گزرگاہ خاموش تھی
شاہزادی نے پلکیں اٹھائیں تو سورج
پہاڑوں کے پیچھے چھپا
آسماں تھوڑا نیچے جھکا
سوچ میں پڑ گیا
اور مجھ کو خبر ہی نہیں
اور پھر
شاہزادی کی آنکھوں کو پہچان کر
آسماں شرم سے لال ہونے لگا
لوگ سمجھے شفق سرخ ہے، شام اتر آئی ہے
شاہزادی ہنسی
دور تک گھنٹیاں بج گئیں
ڈالیاں جھوم کر
اپنی ہمسائیوں کے گلے لگ گئیں
چِیڑ کا سبز جنگل چہکنے لگا
اولیں رُت کا اک جنگلی پھول دے کر مجھے
شاہزادی مِرا ہاتھ تھامے ہوئے
کتنی ہی دیر تک مجھ سے کہتی رہی، جانے کیا کچھ کہا
میں نہیں سن سکا
شاہزادی نے جو کچھ کہا
اک سبق کی طرح
سب شجر اس کو پڑھتے گئے
شاہزادی کے لب چپ ہوئے
تو شجر سب کے سب چپ ہوئے
شاہزادی نے اک گہری سی سانس لی
سرخ کشمیری شال اپنے سر پر رکھی
نیچے وادی کو جاتی ہوئی پگڈنڈی پہ چلنے لگی
ایک دَم ہی ہوا میں نمی بڑھ گئی
چِیڑ کے جنگلوں کی ہوا
اپنی پلکوں کی جھالر بھگونے لگی
شاہزادی کے جانے پہ رونے لگی
اور پہاڑی گزرگاہ پر
ایک تاریک پردہ گِرا
شام کونے لگی
رات ہونے لگی
واحد اعجاز میر
No comments:
Post a Comment