Saturday, 15 February 2020

ایک شاہ زادی کے نام

ایک شاہزادی کے نام

پہاڑی گزرگاہ خاموش تھی
شاہزادی نے پلکیں اٹھائیں تو سورج
پہاڑوں کے پیچھے چھپا
آسماں تھوڑا نیچے جھکا
سوچ میں پڑ گیا
میرے روشن ستارے زمیں پر گئے
اور مجھ کو خبر ہی نہیں
اور پھر
شاہزادی کی آنکھوں کو پہچان کر
آسماں شرم سے لال ہونے لگا
لوگ سمجھے شفق سرخ ہے، شام اتر آئی ہے
شاہزادی ہنسی
دور تک گھنٹیاں بج گئیں
ڈالیاں جھوم کر
اپنی ہمسائیوں کے گلے لگ گئیں
چِیڑ کا سبز جنگل چہکنے لگا
اولیں رُت کا اک جنگلی پھول دے کر مجھے
شاہزادی مِرا ہاتھ تھامے ہوئے
کتنی ہی دیر تک مجھ سے کہتی رہی، جانے کیا کچھ کہا
میں نہیں سن سکا
شاہزادی نے جو کچھ کہا
اک سبق کی طرح
سب شجر اس کو پڑھتے گئے
شاہزادی کے لب چپ ہوئے
تو شجر سب کے سب چپ ہوئے
شاہزادی نے اک گہری سی سانس لی
سرخ کشمیری شال اپنے سر پر رکھی
نیچے وادی کو جاتی ہوئی پگڈنڈی پہ چلنے لگی 
ایک دَم ہی ہوا میں نمی بڑھ گئی
چِیڑ کے جنگلوں کی ہوا
اپنی پلکوں کی جھالر بھگونے لگی
شاہزادی کے جانے پہ رونے لگی
اور پہاڑی گزرگاہ پر
ایک تاریک پردہ گِرا
شام کونے لگی
رات ہونے لگی

واحد اعجاز میر

No comments:

Post a Comment