Sunday 16 February 2020

خود بجھاتا ہے چراغ اور مکر جاتا ہے

روز الزام ہواؤں پہ وہ دھر جاتا ہے
خود بجھاتا ہے چراغ اور مُکر جاتا ہے 
عشق وہ کھیل ہے پیارے کہ بچھڑنے والا
اس سہولت سے بچھڑتا ہے کہ مر جاتا ہے
موت کے بعد، یہی سچ ہے زمانے والو
وقت مشکل ہو یا آسان، گزر جاتا ہے 
ساحلوں سے کوئی گہرائی نہیں ماپ سکا
چوٹ لگتی ہے تو انسان سُدھر جاتا ہے
اسکی آنکھوں میں کشش وہ ہے کہ بس دیکھتے ہی
سیدھا انسان بھی پٹڑی سے اتر جاتا ہے 
پیار اس موڑ پہ لایا ہے جہاں پر ساحر 
اپنی دستار بچاتا ہوں تو سر جاتا ہے

سبطین ساحر

No comments:

Post a Comment