Friday, 7 February 2020

سامنے جی سنبھال کر رکھنا​

سامنے جی سنبھال کر رکھنا​
پھر وہی اپنا حال کر رکھنا​
آ گئے ہو تو اس خرابے میں​
اب قدم دیکھ بھال کر رکھنا​
شام ہی سے برس رہی ہے رات​
رنگ اپنے سنبھال کر رکھنا​
عشق کارِ پیمبرانہ ہے​
جس کو چھونا مثال کر رکھنا​
کشت کرنا محبتیں اور پھر ​
خود اسے پائمال کر رکھنا​
روز جانا اداس گلیوں میں​
روز خود کو نڈھال کر رکھنا​
اس کو آتا ہے موجِ مے کی طرح​
ساغرِ لب اچھال کر رکھنا​
سخت مشکل ہے آئینوں سے رؔسا
واہموں کو نکال کر رکھنا​
رسا چغتائی​

No comments:

Post a Comment