سامنے جی سنبھال کر رکھنا
پھر وہی اپنا حال کر رکھنا
آ گئے ہو تو اس خرابے میں
اب قدم دیکھ بھال کر رکھنا
شام ہی سے برس رہی ہے رات
عشق کارِ پیمبرانہ ہے
جس کو چھونا مثال کر رکھنا
کشت کرنا محبتیں اور پھر
خود اسے پائمال کر رکھنا
روز جانا اداس گلیوں میں
روز خود کو نڈھال کر رکھنا
اس کو آتا ہے موجِ مے کی طرح
ساغرِ لب اچھال کر رکھنا
سخت مشکل ہے آئینوں سے رؔسا
واہموں کو نکال کر رکھنا
رسا چغتائی
No comments:
Post a Comment