Thursday, 13 February 2020

صبح سے شام کے آثار نظر آنے لگے

صبح سے شام کے آثار نظر آنے لگے 
پھر سہارے مجھے بے کار نظر آنے لگے 
اس مسافر کی نقاہت کا ٹھکانہ کیا ہے 
سنگِ منزل جسے دیوار نظر آنے لگے 
ان کے جوہر بھی کھلے اپنی حقیقت بھی کھلی 
ہم سے کِھنچتے ہی وہ تلوار نظر آنے لگے 
مِرے ہوتے، دلِ مشتاق ستم کے ہوتے 
یار منت کشِ اغیار نظر آنے لگے 
سیف اتنا بھی نہ کر ضبط کہ پھر انکے حضور 
خامشی درد کا اظہار نظر آنے لگے

سیف الدین سیف

No comments:

Post a Comment