صبح سے شام کے آثار نظر آنے لگے
پھر سہارے مجھے بے کار نظر آنے لگے
اس مسافر کی نقاہت کا ٹھکانہ کیا ہے
سنگِ منزل جسے دیوار نظر آنے لگے
ان کے جوہر بھی کھلے اپنی حقیقت بھی کھلی
مِرے ہوتے، دلِ مشتاق ستم کے ہوتے
یار منت کشِ اغیار نظر آنے لگے
سیف اتنا بھی نہ کر ضبط کہ پھر انکے حضور
خامشی درد کا اظہار نظر آنے لگے
سیف الدین سیف
No comments:
Post a Comment