Saturday, 29 February 2020

سب یاد رکھا جائے گا

سب یاد رکھا جائے گا

تم رات لکھو، ہم چاند لکھیں گے
تم جیل میں ڈالو، ہم دیوار پھاند لکھیں گے
تم ایف آئی آر لکھو، ہم تیار ہیں لکھیں گے
تم ہمیں قتل کر دو ہم بن کے بھوت لکھیں گے
تمہارے قتل کے سارے ثبوت لکھیں گے
تم عدالتوں سے بیٹھ کر چٹکلے لکھو
ہم سڑکوں، دیواروں پہ انصاف لکھیں گے
بہرے بھی سن کے اتنی زور سے بولیں گے
اندھے بھی پڑھ لیں، اتنا انصاف لکھیں گے
تم کالا کنول لکھو ہم لال گلاب لکھیں گے
تم زمین پہ ظلم لکھ دو آسماں پہ انقلاب لکھا جائے گا
سب یاد رکھا جائے گا، سب کچھ یاد رکھا جائے گا
تمہاری لاٹھیوں اور گولیوں سے قتل ہوئے ہیں جو میرے یار سب
ان کی یاد میں دلوں کو "برباد" رکھا جائے گا
سب یاد رکھا جائے گا، سب کچھ یاد رکھا جائے گا
تم سیاہیوں سے جھوٹ لکھو گے، ہمیں معلوم ہے
ہو ہمارے خون سے ہی ہو، سچ ضرور لکھا جائے گا
سب یاد رکھا جائے گا، سب کچھ یاد رکھا جائے گا
موبائل، ٹیلی فون، انٹرنیٹ بھری دوپہر میں بند کر کے
سرد اندھیری رات میں پورے شہر کو نظر بند کر کے
ہتھوڑیاں لے کر دفعتاً میرے گھر میں گھس آنا
مِرا سر، بدن، مِری مختصر سی زندگی کو توڑ جانا
مِرے لختِ جگر کو بیچ چوراہے پہ مار کر
یوں بے انداز جھنڈ میں کھڑے ہو کر
تمہارا مسکرانا سب یاد رکھا جائے گا
سب یاد رکھا جائے گا، سب کچھ یاد رکھا جائے گا
دن میں میٹھی میٹھی باتیں کرنا سامنے سے
سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے ہر زبان میں تتلانا
رات ہوتے ہی حق مانگ رہے لوگوں پہ
لاٹھیاں چلانا، گولیاں چلانا
ہمیں پہ حملہ کر کے ہمیں کو حملہ آور بتانا
سب یاد رکھا جائے، سب کچھ یاد رکھا جائے گا
میں اپنی ہڈیوں پہ لکھ کر رکھوں گا یہ ساری واردات
تم جو مانگتے ہو مجھ سے میرے ہونے کے کاغذات
اپنی ہستی کا تم کو ثبوت ضرور دیا جائے گا
یہ جنگ تمہاری آخری سانس تک لڑی جائے گی
سب یاد رکھا جائے گا، سب کچھ یاد رکھا جائے گا
کس طرح سے تم نے وطن کو توڑنے کی سازشیں کیں
یہ بھی یاد رکھا جائے گا کہ کس جتن سے
ہم نے وطن کو جوڑنے کی خواہشیں کیں
یہ بھی یاد رکھا جائے گا، سب یاد رکھا جائے گا
جب کبھی بھی ذکر آئے گا جہاں میں دورِ بزدلی کا
تمہارا کام یاد رکھا جائے گا
جب کبھی بھی ذکر آئے گا جہاں میں طورِ زندگی کا
ہمارا نام یاد رکھا جائے گا
کہ کچھ لوگ تھے جن کے ارادے ٹوٹے نہیں تھے
لوہے کی ہتھوڑیوں سے
کہ کچھ لوگ تھے جن کے ضمیر بکے نہیں تھے
آزار داروں کی کوڑیوں سے
کہ کچھ لوگ تھے جو ڈٹے رہے تھے
طوفانِ نوح کے گزر جانے کے بعد تک
کہ کچھ لوگ تھے جو زندہ رہے تھے
اپنی موت کی خبر آنے کے بعد تک
بھلے بھول جائے پلک آنکھوں کو موندھنا
بھلے بھول جائے زمین اپنی دوری پہ گھومنا
ہمارے کٹے پروں کی پرواز کو
ہمارے پھٹے گلوں کی آواز کو یاد رکھا جائے گا
تو تم زمین پہ ظلم لکھ دو آسماں پہ انقلاب لکھا جائے گا
سب یاد رکھا جائے گا، سب کچھ یاد رکھا جائے گا
تاکہ تمہارے نام پر تاعمر لعنتیں بھیجی جا سکیں
تاکہ تمہارے مجسموں پر کالکیں پوتی جا سکیں
تمہارے نام تمہارے مجسموں کو آباد رکھا جائے گا
سب یاد رکھا جائے گا، سب کچھ یاد رکھا جائے

عامر عزیز

No comments:

Post a Comment