Sunday, 23 February 2020

نظر میں تاب ہی کم ہے کہ روشنی کم ہے

نظر میں تاب ہی کم ہے کہ روشنی کم ہے
بصارتوں کا بھرم ہے، کہ روشنی کم ہے
گہن لگا دیا سورج کو پہلی نسلوں نے
یہ میری نسل کا غم ہے کہ روشنی کم ہے
جو شہر بھر کے چراغ اپنے گھر جلاتا ہے
اسی کے در پہ رقم ہے کہ روشنی کم ہے
نہ جانے کس لیے دھندلا رہا ہے ہر چہرہ
یہ میرا آخری دم ہے کہ روشنی کم ہے
کرے گی فیصلہ شمعِ سخنورِ دوراں
سیاہ رات میں دم ہے کہ روشنی کم ہے
میں ٹمٹماتا ہوا آخری ستارہ ہوں
کہ روشنی کی قسم ہے کہ روشنی کم ہے

ورد بزمی

No comments:

Post a Comment