نظر میں تاب ہی کم ہے کہ روشنی کم ہے
بصارتوں کا بھرم ہے، کہ روشنی کم ہے
گہن لگا دیا سورج کو پہلی نسلوں نے
یہ میری نسل کا غم ہے کہ روشنی کم ہے
جو شہر بھر کے چراغ اپنے گھر جلاتا ہے
نہ جانے کس لیے دھندلا رہا ہے ہر چہرہ
یہ میرا آخری دم ہے کہ روشنی کم ہے
کرے گی فیصلہ شمعِ سخنورِ دوراں
سیاہ رات میں دم ہے کہ روشنی کم ہے
میں ٹمٹماتا ہوا آخری ستارہ ہوں
کہ روشنی کی قسم ہے کہ روشنی کم ہے
ورد بزمی
No comments:
Post a Comment