سر اٹھایا تو سر رہے گا کیا
خوف یہ عمر بھر رہے گا کیا
اس نے زنجیر کر کے رکھا ہے
ہم سے وہ بے خبر رہے گا کیا
پاؤں رہتے نہیں زمیں پہ تِرے
مر رہے ہیں فراق میں تیرے
تو ہمیں مار کر رہے گا کیا
عشق خانہ خراب! تیرے بعد
کوئی آباد گھر رہے گا کیا
ہم نہ ہونگے تو یہ جہانِ طلسم
یہ فریبِ نظر رہے گا کیا
تیرا اپنا نہیں، تِرا سایہ
تیرے زیرِ اثر رہے گا کیا
ڈوبنا تھے جسے، وہ ڈوب گیا
تُو بھی اب ڈوب کر رہے گا کیا
دیکھ کر ان پری نژادوں کو
آئینہ خود نگر رہے گا کیا
شہر میں وہ جدھر رہے گا، رؔسا
شہر سارا ادھر رہے گا کیا
رسا چغتائی
No comments:
Post a Comment