Friday, 7 February 2020

سر اٹھایا تو سر رہے گا کیا

سر اٹھایا تو سر رہے گا کیا
خوف یہ عمر بھر رہے گا کیا
اس نے زنجیر کر کے رکھا ہے
ہم سے وہ بے خبر رہے گا کیا
پاؤں رہتے نہیں زمیں پہ تِرے
ہاتھ دستار پر رہے گا کیا
مر رہے ہیں فراق میں تیرے
تو ہمیں مار کر رہے گا کیا
عشق خانہ خراب! تیرے بعد
کوئی آباد گھر رہے گا کیا
ہم نہ ہونگے تو یہ جہانِ طلسم
یہ فریبِ نظر رہے گا کیا
تیرا اپنا نہیں، تِرا سایہ
تیرے زیرِ اثر رہے گا کیا
ڈوبنا تھے جسے، وہ ڈوب گیا
تُو بھی اب ڈوب کر رہے گا کیا
دیکھ کر ان پری نژادوں کو
آئینہ خود نگر رہے گا کیا
شہر میں وہ جدھر رہے گا، رؔسا
شہر سارا ادھر رہے گا کیا

رسا چغتائی​

No comments:

Post a Comment