Friday 7 February 2020

موج در موج نظر آتا تھا سیلاب مجھے

موج در موج نظر آتا تھا سیلاب مجھے
پاؤں ڈالا تو یہ دریا لگا پایاب مجھے
شدتِ کرب سے کمہلا گئے چہرے کے خطوط
اب نہ پہچان سکیں گے مِرے احباب مجھے
ایک سایہ کہ مجھے چین سے سونے بھی نہ دے
ایک آواز کہ، کرتی رہے بے تاب مجھے
جس کی خواہش میں کسی بات کی خواہش نہ رہے
ایسی جنت کے دکھائے نہ کوئی خواب مجھے
جب چٹانیں ہی بہی جاتی ہیں تنکوں کی طرح
جانے لے جائے کہاں وقت کا سیلاب مجھے
بت تو دنیا نے بہر گام تراشے، لیکن
سر جھکانے کے نہ آئے کبھی آداب مجھے
وسعتیں دامنِ صحرا کو بھی بخشی ہوتیں
تُو نے بخشی تھی اگر فطرتِ سیماب مجھے

مرتضیٰ برلاس

No comments:

Post a Comment