Monday, 24 February 2020

کوئی سوال نہ کر اور کوئی جواب نہ پوچھ

کوئی سوال نہ کر، اور کوئی جواب نہ پوچھ
تُو مجھ سے عہدِ گزشتہ کا اب حساب نہ پوچھ
سفینے کتنے ہوئے اس میں غرقِ آب نہ پوچھ
تُو میرے دل کے سمندر کا اضطراب نہ پوچھ
میں کب سے نیند کا مارا ہوا ہوں، اور کب سے
یہ میری جاگتی آنکھیں ہیں محوِ خواب نہ پوچھ
سفر میں دھوپ کی شدت نے بھی ستایا، مگر
فریب دیتے رہے کس قدر سراب نہ پوچھ
کبھی عروج پہ تھا خود پہ اعتماد مِرا
غروب کیسے ہوا ہے یہ آفتاب نہ پوچھ

خوشبیر سنگھ شاد

No comments:

Post a Comment