Wednesday 5 February 2020

دل کسی صورت مگر آباد ہے

راستوں میں اک نگر آباد ہے
اس تصور ہی سے گھر آباد ہے
کیسی کیسی صورتیں گم ہو گئیں
دل کسی صورت مگر آباد ہے
کیسی کیسی محفلیں سُونی ہوئیں
پھر بھی دنیا کس قدر آباد ہے
زندگی پاگل ہوا کے ساتھ ساتھ
مثلِ خاکِ رہگزر آباد ہے
دشت و صحرا ہو چکے قدموں کی گرد
شہر اب تک دوش پر آباد ہے
بے خودی رسوا تو کیا کرتی مجھے
مجھ میں کوئی بے خبر آباد ہے
دھوپ بھی سنولا گئی ہے جس جگہ
اس خرابے میں سؔحر آباد ہے

سحر انصاری

No comments:

Post a Comment