اپنی بربادی کا نوحہ
کیا بود و باش پوچھو ہو شہ کے مصاحبو
"ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے"
ہاں، ہم نے مفلسی میں گزاری ہے زندگی
ہم کاسہ لیس تھے ہی نہیں شہریار کے
ہم تو سدا رہے ہیں فلک کی امان میں
ہم رہنے والے ہی نہ تھے خاکی دیار کے
ہم نے کسی سے بھیک میں مانگی نہ نوکری
رکھی نہ شہ کے پاؤں میں پگڑی اتار کے
غیبت کے پتھروں سے ہمیں مارتے ہو کیوں
ہم تو نہیں کسی بھی قطار و شمار کے
زندوں کا رزق کھاتے تھے مُردے جہاں مدام
وہ ملک ہم نے چھوڑ دیا تھک کے، ہار کے
جس دن سے دیس چھٹ گیا، ہم جان سے گئے
پردیسیوں سے روٹھ گئے دن بہار کے
اُس سرزمیں کو جس میں میری ماں کی قبر ہے
مسعود میں نے بھیجے ہیں سندیس پیار کے
مسعود منور
No comments:
Post a Comment