Tuesday 18 February 2020

خود کو اتنا بھی مت ستایا کر

خود کو اتنا بھی مت ستایا کر
خواہشیں ہوں تو پھر بتایا کر
تجھ پہ سنجیدگی نہیں جچتی
وجہ بے وجہ مسکرایا کر
آئینہ بے زبان ہوتا ہے
سج سنور کے مجھے دکھایا کر
سر اٹھانا محال ہو جائے
اتنا احسان مت جتایا کر
کیسے کیسے خیال آتے ہیں
شام ہوتے ہی لوٹ آیا کر

محشر آفریدی

No comments:

Post a Comment